پاکستان

جبری گمشدگیوں پر نیا کمیشن بنانے کا مطالبہ

موجودہ کمیشن ذمہ داریاں پوری کرنےمیں ناکام ہوا، 6برس گزرنے کے باوجود بھی ملزمان کے خلاف رپورٹ پبلک نہیں کی گئی، سینیٹرز

کوئٹہ: پاکستان پیپلز پارٹی( پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کیا ہے کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق نیا کمیشن بنا جائے کیونکہ موجودہ کمیشن اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہوچکا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 6 برس گزرنے کے باوجود بھی ملزمان کے خلاف درج ایف آئی آر اور رپورٹ کو قانون کے مطابق منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

اس بات کا مطالبہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت میں انسانی حقوق پر سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔

اجلاس میں سینیٹرز ستارہ ایاز، ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی، میر کبیر، مفتی عبدالستار اور فرحت اللہ بابر نے شرکت کی، جبکہ بلوچستان کے ہوم سیکریٹری ڈاکٹر اکبر ہری فال، آئی جی پولیس معظم انصاری اور ایڈیشنل آئی جی چوہدری بھی موجود تھے۔

مزید پڑھیں: جبری گمشدگیوں کے معاملے پر حکومت بے بس ہے، قانونی ماہر

اجلاس میں کمیٹی کی جانب سے دیگر مسائل کے علاوہ بلوچستان میں لاپتہ افراد اور ہزارہ برادری کی ٹارگٹ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نےکہا کہ نئے کمیشن میں تحقیقاتی ماہر شامل کیے جائیں اور ان کی تحقیقات کی جانے والی رپورٹ پبلک کی جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2010 میں مرحوم جسٹس منصور کمال کی سربراہی میں بنائے گئے پہلے کمیشن کی رپورٹ بھی منظر عام پر لائی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ اپنے گھروں کو واپس آگئے ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ کمیٹی کو 45 حراستی مراکز میں موجود قیدیوں کے بارے میں معلومات دی جانی چاہیے تاکہ وہ اس معاملے کو مزید آگے بڑھا سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'لاپتہ افراد کمیشن، گمشدگیوں میں ملوث اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانے میں ناکام'

پیپلز پارٹی کے سینیٹر کا کہنا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اپنی سوانح حیات میں یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت نے 689 عسکریت پسندوں کو پکڑا تھا جس میں سے 369 کو کسی مقدمے کے بغیر لاکھوں ڈالر میں امریکا کے حوالےکیا تھا تاہم اس پر پرویز مشرف کا کسی قسم کا احتساب نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان کو پرویز مشرف کی جانب سے بغیر کسی مقدمے اور قانونی طریقہ کار کے لوگوں کی دیگر ممالک کو حوالگی کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنی چاہیے۔