پاکستان

طیارہ حادثہ: پانچ سال بعد بھوجا ایئر مالکان کے خلاف مقدمہ درج

مقدمہ بھوجا ایئر کےمالک فاروق عمربھوجا،جیٹ ایوی ایشن شارجہ کےارشد جلیل اور سی اے اے کے افسروں کے خلاف درج کیا گیا، پولیس

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے پانچ سال بعد بھوجا ایئر حادثے کا مقدمہ ایئرلائن کے مالکان کے خلاف درج کرلیا اور ساتھ ہی پولیس نے مالکان کے ساتھ جوڈیشل کمیشن کی جانب سے موردِ الزام ٹہرائے گئے دیگر ذمہ داران کے خلاف بھی مقدمہ درج کرلیا۔

واضح رہے کہ پانچ سال قبل بھوجا ایئر کے طیارہ حادثے میں 125 افرادجاں بحق ہوئے تھے۔

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے 2 مرتبہ پولیس کو حکم دیا کہ وہ اس حادثے کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کریں، جس پر لوہی بھیر پولیس نے ایف آئی آر درج کرلی۔

مقدمہ بھوجا ایئر پرائیوٹ لمیٹڈ کے مالک،ڈائریکٹراور شیئر ہولڈرز فاروق عمر بھوجا، جیٹ ایوی ایشن شارجہ کے ارشد جلیل اور سول ایوی ایشن اتھارٹی( سی اے اے) کے افسروں کے خلاف درج کیا گیا۔

مزید پڑھیں: طیارہ حادثہ: 'حادثے میں انسانی غلطی کا امکان نہیں'

پولیس نے ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ ( پی پی سی) کے تحت ایف آئی آر میں دفعہ 109 (اکسانے کی سزا) دفعہ 120 بی ( مجرمانہ سازش)، 286( دھماکہ خیزمواد سے متعلق) 287 ( مشینری میں غفلت) 302 ( اقدام قتل) اور 417 ( دھوکا دہی) کی دفعات شامل کی ہیں۔

اس حوالے سے لوہی بھیر کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر ( ایس ایچ او) انسپکٹر محبوب احمد نے ڈان کو بتایا کہ اگر چہ حادثے کے بعد بھی مقدمہ درج کیا گیا تھا، تاہم عدالت کے حکم پربھی مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ ہم اس دوسرے مقدمے کے بارے میں رائے لینے کے لیے قانونی ٹیم تک رسائی حاصل کر رہے اوران کی رائے کے مطابق ہی مزید کارروائی کی جائے گی۔

اس بارے میں کراچی کے رہائشی درخواست گزار عابد رحمان نے ڈان کو بتایا کہ 2012 میں بھوجا ایئر متاثرین کے ورثاء نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس غلام ربانی کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنایا تھا جس نے 2014 میں اپنی رپورٹ جمع کرائی تھی۔

عابد رحمٰن کے مطابق مقدمہ درج کرنے کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی( ایف آئی اے) کے پاس شکایت درج کرائی گئی تھی لیکن ایف آئی اے کی جانب سے انہیں آگاہ کیا کہ یہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

یہ بھی پڑھیں: حویلیاں حادثہ : 'طیارے نے لینڈنگ کی کوشش نہیں کی'

2016 میں انسپکٹر جنرل ( آئی جی) پولیس اسلام آباد کو بھی شکایت درج کرائی تھی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا،اس کے بعد سیشن اور ڈسٹرکٹ کورٹ کے حکم سے قبل مئی 2017 میں کرمنل پروسیڈرکورڈ کے سیکشن 22 اے کے تحت ایک درخواست دائر کی گئی تھی۔

عابد رحمٰن نے کہا کہ پولیس نے ایک بار پھر مقدمہ درج کرنے سے انکار کیا تھا، پولیس کا کہنا تھا کہ بھوجا طیارہ حادثے کے خلاف مقدمہ درج ہے جو حادثے کے فوری بعد حکومت کی شکایت پر درج کیا گیا تھا۔

اس کےبعد ستمبر 2017 میں اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں ایک اور درخواست دائر کی گئی جس میں سول جج نے پولیس کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا۔

عابد رحمٰن نے ڈان کو بتایا کہ جج نے پولیس سے کہا کہ وہ حادثے کےخلاف مقدمہ درج کررہے یا عدالتی حکم نہ ماننے پر ایس ایچ او کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔

ان کاکہنا تھا کہ وہ شکایات درج کرا کر کراچی چلے گئے تھے، اب انہیں پتہ چلا ہے کہ مقدمہ درج کرلیا گیا۔

عابد رحمٰن کا کہنا تھا کہ یہ میرے لیے ایک سخت لڑائی تھی، جس نے اپنی ماں کو اس حادثے میں کھویا، مجھ سمیت یہ ان خاندانوں کے لیے بھی کڑا وقت تھا جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس حادثے میں کھویا، ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے مجھے اس مقدمے کی پیروی کرنے سے منع کیا لیکن میں نے اپنی والدہ کی قبر پر یہ وعدہ کیا تھا کہ میں متاثرہ افراد کو انصاف دلاؤں گا تاکہ دوبارہ ایسا نہ ہوسکے۔

مزید پڑھیں: پاک فضائیہ کا طیارہ سرگودھا کے قریب گر کر تباہ

یاد رہے کہ 20 اپریل 2012 کو بد قسمت طیارہ بوئنگ 200- 737 کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے بے نظیر انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اترنے سے قبل حسین آباد کے مقام پر حادثے کا شکار ہوگیا تھا۔

اس بارے میں بنائے گئے جوڈیشل کمیشن رپورٹ کا کہنا تھا کہ سی اے اے نے بھوجا ایئر کے ایک طیارے کو ایئرآپریٹر سرٹیفکیٹ ( آر پی ٹی لائننس) جاری کیا تھا جو اس فضائی سفر کےلیے ٹھیک نہیں تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمپنی کی مالی ساخت بہتر نہیں تھی اور انہوں نے مطلوبہ معیارکے مطابق اس کا انفرا اسٹرکچر نہیں بنایا تھا، جو ایئر نیوی گیشن آرڈر اور نیشنل ایوی ایشن پالیسی کی خلاف ورزی تھی۔

ابتدائی طور پر اس حادثے کا ذمہ دار پائلٹ کو قرار دیا جارہا تھا، جبکہ کمیشن نے الزام لگایا کہ بھوجا ایئر کی ڈسپیچ سروس عملے کو منزل کے ارد گرد کے موسم کے بارے میں بتانے میں ناکام رہی۔


یہ رپورٹ 13 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی