'ملکی اداروں کے بارے میں سرعام بات کرنا غیر مناسب'
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما ریحان ہاشمی نے پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی اداروں کے بارے میں اس طرح کے بیانات سرعام ٹی وی پر آکر دینا ایک نامناسب عمل ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' میں گفتگو کرتے ہوئے ریحان ہاشمی نے کہا کہ ایسے وقت میں جب انتخابات قریب ہیں تو دو سیاسی جماعتوں کا اتحاد ایک خوش آئند بات ہے اور اگر اس کے پیچھے ایک ایسا ثالث کا کردار ہے جس پر دونوں کا ہی اعتماد ہو تو ملک کے استحکام اور شہر کے حالات کی خاطر ایسا کرنا کوئی غلط بات نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'اگر اداروں میں سے کسی نے ثالثی کا کردار کیا بھی ہو تو اسے اس طرح سے پبلک کرنا آنے والے دنوں میں حالات کو مزید ابتر کرنے کے مترادف ہوسکتا ہے، کیونکہ اس سے ایک غلط تاثر جنم لے گا'۔
اس سوال پر کہ اگر آپ اسے غیر مناسب قرار دے رہے ہیں تو پھر خود فاروق ستار کی جانب سے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر کو خط لکھنا کس طرف اشارہ تھا ؟ ان کہنا تھا کہ بطور ایک عام شہری اور ملک کی چوتھی بڑی جماعت کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے ان کا خط لکھنا کوئی بڑی بات نہیں اور یہ ہر پاکستانی کا حق ہے کہ وہ اسی صورتحال میں ملکی اداروں کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرسکتیں ہیں‘۔
پروگرام میں موجود پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما شازیہ مری کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو دن سے کراچی کی سیاست میں ایک الجھن تھی، مگر اب مصطفیٰ کمال نے کچھ واضح بات کی ہے، مگر ابھی تک یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا یہ الزام ہے یا حقیقاً اسٹیبلشمنٹ ہی اس اتحاد کی وجہ تھی۔
مزید پڑھیں: ’متحدہ، پی ایس پی اتحاد میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ‘
انھوں نے کہا کہ 'میں سمجھتی ہوں کہ سیاست میں اداروں کا کردار نہیں ہونا چاہیے کہ اگر یہ دونوں میں سے کسی بھی جماعت کی درخواست پر ہوا تو بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا'۔
شازیہ مری کا کہنا تھا کہ اس وقت ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی دونوں کو ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور اب تک جو چیزیں واضح ہوئی ہیں انہیں مزید صاف انداز میں بتایا جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آیا یہ الزام ہے یا پھر حقیقت میں ہی ایسا ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جس طرح سے انجیئرڈ سیاست کا لفظ استعمال ہورہا ہے، یہ کام سیاست میں ہو تو ٹھیک ہے، لیکن اسٹیبلشمنٹ یا دیگر اداروں کو اس میں لانا ملک کے لیے بدنامی کا باعث ہے'۔
اس موقع پر پروگرام میں پی ایس پی کے رہنما ارشد وہرہ نے کہا کہ مصطفیٰ کمال نے آج جو انکشاف کیا ہے وہ درِ اصل یہ پیغام دینا تھا کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ جس نے کراچی کا امن بحال کروایا وہ مزید کسی تشدد کی سیاست کی اجازت نہیں دے سکتی اور اسی وجہ سے اس نے دونوں جماعتوں میں اتحاد قائم کروانے میں کردار ادا کیا، کیونکہ سیکیورٹی ادارے اپنی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔
ارشد وہرہ کا کہنا تھا کہ 'سب جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم پاکستان فاروق ستار کی جماعت نہیں ہے اور اس وقت یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اور جیسا کہ ماضی میں متحدہ کے را کے ساتھ تعلقات رہے ہیں اُس تناظر میں مزید کوئی بھی پھر سے ایسی سیاست کرنے کی اجازت نہیں دے گا جس سے ملک کو نقصان ہو۔
خیال رہے کہ کراچی کی سیاست میں ایک نیا موڑ اٗس وقت آیا جب گذشتہ روز پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے کہا کہ ان کی جماعت اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے اتحاد کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: فاروق ستار نے سیاست چھوڑنے کا فیصلہ واپس لے لیا
کراچی میں پی ایس پی کے مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار مجبوراً یہ کام کر رہے ہیں۔
ایم کیو ایم سے اتحاد سے قبل متحدہ رہنماوں کے ساتھ ہونے والے اجلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پی ایس پی کے چیئرمین نے کہا کہ مجھے ڈاکٹر فاروق ستار نے بلایا تھا، وہ اجلاس شروع ہونے سے قبل ہی موجود تھے اور اب تک جو کچھ بھی ہوا وہ سب ڈاکٹر فاروق ستار کی خواہش پر ہوا۔
موجودہ چیف آف جنرل اسٹاف اور سندھ رینجرز کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل بلال اکبر کا نام لے کر پی ایس پی سربراہ نے دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان ہم پر اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہونے کا الزام لگا رہی ہے حالانکہ ایم کیو ایم پاکستان تو پیدا ہی ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز سندھ کے دفتر میں ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے صدر مصطفیٰ کمال نے بدھ (8 نومبر) کو مشترکہ پریس کانفرنس میں سیاسی اتحاد کا اعلان کیا تھا۔
مصطفیٰ کمال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ’ایک عرصے سے پی ایس پی اور ایم کیو ایم میں مشاورتی عمل جاری تھا، لیکن اب فیصلہ کیا ہے کہ مل کر سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کی خدمت کی جائے اور بہترین ورکنگ ریلیشن شپ اور سیاسی اتحاد قائم کیا جائے۔‘
پریس کانفرنس کے دوران ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ سیاسی اتحاد عارضی اور جزوی عمل نہیں، آئندہ انتخابات میں ایک نام، ایک نشان اور ایک منشور کو لے کر جائیں گے، آئندہ ملاقاتوں میں فریم ورک کو تشکیل دیں گے، اتحاد میں دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی دعوت دیں گے کیونکہ سندھ اور کراچی کی خدمت کے لیے دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ ملانا ہوگا، جبکہ امید ہے اب ہمارے سیل دفاتر واپس مل جائیں گے۔‘
مصطفیٰ کمال نے فاروق ستار کے سیاسی اتحاد کے اعلان کی توثیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک انتخابی نشان کے ساتھ پارٹی کے لیے تیار ہیں، ہم ایک نشان، نام اور منشور پر مل کر ایسی قیادت نکالنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی آواز بنے۔‘
دونوں جماعتوں کے اتحاد کے ایک روز بعد ہی فاروق ستار، مصطفیٰ کمال پر خوب گرجے برسے اور اپنی رابطہ کمیٹی سے بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی کی سربراہی اور سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
تاہم اس اعلان کے ایک گھنٹے کے اندر ہی انہوں نے اپنی والدہ کی خواہش پر سیاست چھوڑنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔