’متحدہ، پی ایس پی اتحاد میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ‘
پاک سر زمین پارٹی (پی ایس پی) کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ ان کی جماعت اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے اتحاد کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔
کراچی میں پی ایس پی کے مرکزی دفتر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ہم اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار مجبوراً یہ کام کر رہے ہیں۔
ایم کیو ایم سے اتحاد سے قبل متحدہ رہنماوں کے ساتھ ہونے والے اجلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پی ایس پی کے چیئرمین نے کہا کہ مجھے ڈاکٹر فاروق ستار نے بلایا تھا، وہ اجلاس شروع ہونے سے قبل ہی موجود تھے اور اب تک جو کچھ بھی ہوا وہ سب ڈاکٹر فاروق ستار کی خواہش پر ہوا۔
ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے طنزیہ طور پر کہا کہ ہم خبروں کو لیک کرنے والے نہیں بلکہ صاف صاف بات کرنے والے لوگ ہیں، ہم مہاجر قوم کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے ملک کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔
موجودہ چیف آف جنرل اسٹاف اور سندھ رینجرز کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل بلال اکبر کا نام لے کر پی ایس پی سربراہ نے دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان ہم پر اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہونے کا الزام لگا رہی ہے حالانکہ ایم کیو ایم پاکستان تو پیدا ہی ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) رینجرز سندھ کے دفتر میں ہوئی تھی۔
اب تک کیا کیا ہوا؟
• 2 روز قبل ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے سربراہان کی مشترکہ پریس کانفرنس
• فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال نے سیاسی اتحاد بنانے کا اعلان
• پریس کانفرنس میں مصطفیٰ کمال کا ایم کیو ایم ختم کرنے کا دعویٰ
• پریس کانفرنس کے اگلے روز ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا، پارٹی سربراہ فاروق ستار عدم موجود
• رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد فاروق ستار کا پریس کانفرنس کرکے سیاست سے دستبرداری کا اعلان
• رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کو منا لیا، وہ دوبارہ ایم کیو ایم کے سربراہ بن گئے
• فاروق ستار نے ایک بار پھر پریس کانفرنس کی، مصطفیٰ کمال پر الزامات
• مصطفیٰ کمال نے پریس کانفرنس کرکے دعویٰ کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے فاروق ستار نے ملاقات پر مجبور کیا
میں ایجنٹ نہیں
اسٹیبلشمنٹ کے تاثر کو رد کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اگر میں اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہوتا تو ایم کیو ایم میں رہ کر ہی یہ کام کر لیتا اور اپنی جماعت اور عہدہ چھوڑنے کی ضرورت نہیں تھی تاہم میں زیرحرست افراد کی رہائی کے لیے اسٹبلشمنٹ سے رابطے میں ہوں۔
ایم کیو ایم کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے پی ایس پی سربراہ نے بتایا کہ ملکی مفاد اور نئی پارٹی کے لیے انھوں نے ڈاکٹر فاروق ستار کو پاک سرزمین پارٹی ختم کرنے کی بھی پیش کش کی تھی۔
مزید پڑھیں: فاروق ستار نے سیاست چھوڑنے کا فیصلہ واپس لے لیا
انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر فاروق ستار کی پریس کانفرنس کا فیصلہ راتوں رات نہیں ہوا بلکہ یہ تمام معاملات 8 ماہ سے جاری تھے، اور ایم کیو ایم پاکستان نے اسٹیبلشمنٹ سے کہہ کر پاک سرزمین پارٹی کو اپنے پاس بلوایا۔
'فاروق ستار، عمران فاروق کے قاتل کو جانتے ہیں'
ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فاروق ستار جانتے ہیں کہ عمران فاروق کا قتل الطاف حسین نے کروایا، جس میں ’انڈین نیٹ ورک‘ ملوث ہے، اب انھیں چاہیے کہ ان کی قبر پر جاکر الطاف حسین کے خلاف بد دعا کریں۔
ایم کیو ایم کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات پر ان کا کہنا تھا کہ میں تو پہلے ہی قبول کر چکا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ سے صبح شام رابطے میں ہوں، منتیں کر کر کے 300 میں سے 70 مہاجر لاپتہ نوجوانوں کو ان کے گھر والوں سے ملوا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: علی رضا عابدی کا ایم کیوایم سے استعفے کا اعلان
مصطفیٰ کمال نے 22 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم کی جانب سے پاکستان مخالف نعرے لگانے والے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس دوران ایم کیو ایم پاکستان والوں نے کسی بھی مشتعل فرد کو نہیں روکا، کراچی میں نجی ٹی وی چینلز پر حملے ہوئے، بعد ازاں جب سندھ رینجرز نے ان کے خلاف مقدمات کے مطابق کارروائی کرنے کی تیاری کی، تو ایم کیو ایم کے متعدد ارکان قومی اور سندھ اسمبلی نے انیس قائم خانی کو فون کر کے پی ایس پی میں شامل ہونے کا عندیہ دیا۔
یاد رہے کہ 22 اگست 2016 کو کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتال کیمپ میں بیٹھے ایم کیو ایم کے کارکنوں سے خطاب کے دوران اس وقت پارٹی کے قائد الطاف حسین نے پاکستان کے مخالف نعرے لگوائے تھے، انہوں ٹی وی چینلز پر حملوں کی ہدایت کی، ہنگامہ آرائی کے دوران فائرنگ سے ایک شخص ہلاک بھی ہوا، بعدازاں کراچی پریس کلب پر میڈیا سے گفتگو کے لیے آنے والے فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز نے حراست میں لے لیا تھا، جنہیں 23 اگست کی صبح رہا کیا گیا، تاہم رہائی کے فوری بعد فاروق ستار نے میڈیا سے گفتگو میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا۔
مصطفی کمال نے پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے ارکان قومی اور سندھ اسمبلی کی فہرست فراہم کی تھی اور کہا تھا کہ یہ لوگ پی ایس پی میں شامل ہو نے والے ہیں، انہیں روکا جائے کیونکہ وہ پی ایس میں شامل ہو کر اسٹیبلشمنٹ کے کام کے نہیں رہیں گے، اسی وجہ سے میں نے اپنی پارٹی میں شامل ہونے والوں کو استعفے دینے سے روک دیا۔
مزید پڑھیں: پرویز مشرف کا ایم کیو ایم،پی ایس پی کے اتحاد پر خوشی کا اظہار
'مہاجروں کے مسائل ختم نہیں ہوئے'
انہوں نے کہا کہ کراچی، حیدر آباد، سکھر اور میر پورخاص کے ارکانِ اسمبلی ایم کیو ایم پاکستان کے پاس ہیں، کراچی، حیدر آباد میں ان کی بلدیاتی حکومت ہے، ان کے پاس سینیٹرز ہیں، لیکن پھر بھی ان شہروں میں مہاجر قوم کے مسائل ختم نہیں ہورہے۔
کراچی کے سابق سٹی ناظم نے مہاجر قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ مہاجر کا نام لے کر سیاست کر رہے ہیں وہ اس قوم کا بھلا نہیں کر رہے۔
مصطفیٰ کمال کا مزید کہنا تھا کہ اس شہر میں لاکھوں کی تعداد میں پختون، بلوچ، پنجابی، سندھی اور سرائیکی رہتے ہیں اگر میں بھی مہاجر کا نام لے کر سیاست کروں گا تو یہ سب ہم سے دور ہوں گے اور ہمارے خلاف نفرت لے کر جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ’اتحاد کا مقصد ایم کیو ایم کو ختم کرنا‘
پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ جب ہم پاکستان آئے تھے تب یہ سب آپریشن کہاں ہو رہا تھا؟ تو کیا آپ لوگ ہمیں بتائیں گے کہ ہم مہاجروں کے کتنے خیر خواہ ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی کے سابق میئر اور ایم کیو ایم کے سابق رہنما مصطفیٰ کمال نے 3 مارچ 2016 کو ایم کیو ایم کے منحرف رہنما انیس قائم خانی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم قائد پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے تھے، بعد ازاں انھوں نے علیحدہ سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی بنانے کا اعلان بھی کیا،جس میں ایم کیو ایم کے ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی سمیت سینئر رہنماؤں نے شمولیت کا اعلان کیا، جس پر ایم کیو ایم کی جانب سے مصطفیٰ کمال کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا، حالیہ دنوں میں کراچی کے ڈپٹی میئر ارشد وہرہ ایم کیو ایم سے پی ایس پی میں شامل ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر فاروق ستار کے بیان کا حوالے دیتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اگر میری والدہ زندہ ہوتیں تو میں کبھی انہیں سیاست میں ملوث نہیں کرتا۔
میئر کراچی پر کرپشن کا الزام
مصطفیٰ کمال نے کہا کہ اسی سال کا واقعہ ہے، کراچی کے ایک بوڑھے مہاجر شخص کے پینشن کے 12 لاکھ روپے نہیں مل رہے تھے، اس نے وسیم اختر کے بیٹے تک رسائی حاصل کی اور درخواست کی کہ اپنے والد وسیم اختر سے کہہ کر میرے پیسے ریلیز کروادیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بوڑھے شخص کی التجا پر وسیم اختر کے بیٹے نے بزرگ سے ان کی 12 لاکھ روپے کی پینشن نکلوانے کے لیے 6 لاکھ روپے کی رشوت طلب کی، جس کے بعد اس شخص کو اس کے 12 لاکھ روپے ملے۔
مصطفیٰ کمال نے کراچی کے میئر وسیم اختر پر رشوت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ وسیم اختر 50 لوگوں کے سامنے 6 فیصد رشوت مانگتے ہیں۔
الطاف حسین پر تنقید
الطاف حسین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال نے کہا کہ انہوں نے کراچی میں اپنے دورِ نظامت میں شہر کی گلی کوچوں میں کام کروائے، جس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ سب کام مجھے سکھائے گئے، اس پر میں سوال کرتا ہوں کہ یہ سب کام مجھے بتائے گئے تھے تو کیا یہ سب حیدر آباد کے میئر اور پارٹی کے دیگر ذمہ داران کو نہیں سکھائے گئے تھے جو عوامی خدمت کے منصب پر فائز تھے؟
واضح رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے صدر مصطفیٰ کمال نے بدھ (8 نومبر) کو مشترکہ پریس کانفرنس میں سیاسی اتحاد کا اعلان کیا تھا۔
مصطفیٰ کمال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ’ایک عرصے سے پی ایس پی اور ایم کیو ایم میں مشاورتی عمل جاری تھا، لیکن اب فیصلہ کیا ہے کہ مل کر سندھ بالخصوص کراچی کے عوام کی خدمت کی جائے اور بہترین ورکنگ ریلیشن شپ اور سیاسی اتحاد قائم کیا جائے۔‘
پریس کانفرنس کے دوران ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ سیاسی اتحاد عارضی اور جزوی عمل نہیں، آئندہ انتخابات میں ایک نام، ایک نشان اور ایک منشور کو لے کر جائیں گے، آئندہ ملاقاتوں میں فریم ورک کو تشکیل دیں گے، اتحاد میں دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی دعوت دیں گے کیونکہ سندھ اور کراچی کی خدمت کے لیے دیگر جماعتوں کو بھی ساتھ ملانا ہوگا، جبکہ امید ہے اب ہمارے سیل دفاتر واپس مل جائیں گے۔‘
مصطفیٰ کمال نے فاروق ستار کے سیاسی اتحاد کے اعلان کی توثیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایک انتخابی نشان کے ساتھ پارٹی کے لیے تیار ہیں، ہم ایک نشان، نام اور منشور پر مل کر ایسی قیادت نکالنا چاہتے ہیں جو پاکستان کی آواز بنے۔‘
دونوں جماعتوں کے اتحاد کے ایک روز بعد ہی فاروق ستار، مصطفیٰ کمال پر خوب گرجے برسے اور اپنی رابطہ کمیٹی سے بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پارٹی کی سربراہی اور سیاست سے دستبرداری کا اعلان کیا۔
تاہم اس اعلان کے ایک گھنٹے کے اندر ہی انہوں نے اپنی والدہ کی خواہش پر سیاست چھوڑنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔