اب ایسے زاہدِ خشک، بلاوجہ جھپٹ پلٹ کر خود کو تھکاتے اور گھر سے بے زار پرندے کا کیا فائدہ، اِس لیے علامہ نے اُسے مشورہ دیا بھیا جان چھوڑ تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔ اِس ہدایت پر شاہین سر جھکا کر اُڑ گیا اور دور کہیں پہاڑوں میں جاکر بس گیا تھا۔ پھر جب اُس نے ہماری معاشی حالت دیکھی تو اُسے بہت ترس آیا، قومِ اقبال کے حال پر بہت رویا اور پہاڑوں سے اُتر کر میدانوں اور صحراوں کا رُخ کرلیا کے اُس کی چاہ میں عرب شہزادے آئیں، یہاں محل بنائیں، شکار گاہیں سجائیں اور پاکستان کے مفلس مردِ مومن اُن کی وجہ سے کمائیں کھائیں۔
خودی
یہ فلسفہ خالص پاکستانیوں کے لیے دیا گیا، جس پر ہم نے پوری دل جمعی سے عمل کیا۔ دراصل یہ 'خود ہی' ہے، جسے شعری ضرورت کے تحت خودی کردیا گیا۔ اِس فلسفے پر عمل کے لیے انسان کا پکا سچا خدا پرست ہونا ضروری ہے، جو الحمد اللہ ہم ہیں۔ اُسے یقین رکھنا چاہیے کہ ہر کام خود ہی ہوجائے گا۔ جیسے 71 کی جنگ میں منتظر رہے کہ امریکا ہماری حفاظت کا بیڑا اُٹھائے گا، اُس کا بحری بیڑا آئے گا اور پاکستان خود ہی بچ جائے گا۔ ہمارے حکمرانوں نے فلسفہءِ خودی کو مسلسل اپنا رکھا ہے۔ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ ملک کے مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں گے۔
بہت سے لوگ اِس خودی کو خودداری والی خودی سمجھتے ہیں۔ بات ٹھیک ہے، مگر ہوا یہ کہ علامہ اقبال کا یہ فرمان 'خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے' سُن کر ہم بندے اپنی خودی کو بلند کرتے کرتے اتنی اوپر لے گئے کہ اب وہ خوردبین سے بھی نظر نہیں آتی۔ بے چاری پی آئی اے عشروں تک اِسی خودی کو آسمانوں میں ڈھونڈتی رہی پھر مایوس ہوکر بہت سی پروازیں بند کردیں۔ اب طے ہوچکا ہے کہ خودداری والی خودی کو دفع کرو، فلسفہءِ خود ہی کی رو سے اِسے آنا ہوگا تو خود بہ خود آجائے گی۔
ملت
میاں! مصورِ پاکستان کا تصور ملت جاننے کے لیے بس یہ سمجھ لو کہ 'اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر'، اقوامِ مغرب نیٹو بنائیں یا یورپی یونین، خبردار تم نے خود کو اُن پر قیاس کرتے ہوئے کوئی ایسی حرکت کی۔ اِسی طرح مغربی اقوام میں قومی یک جہتی، اتحاد اور باہمی تعاون جیسی صفات پائی جاتی ہیں، تمہیں اِن سب سے دور رہنا ہے۔
بس اِس سے زیادہ علامہ کے تصورِ ملت کو سمجھنے اور کھوجنے کی کوشش نہ کرنا، ورنہ ذلت اُٹھانا ہوگی، یہ سمجھا جائے گا کہ تمہیں انتہاپسندی کی لت لگ گئی ہے اور پھر حالت خراب کردی جائے گی۔ علامہ اقبال کے تصورِ ملت کے بارے میں اِس نکتے کو ذہن نشین کرلو کہ یہ مسلسل ایک ہی حالت میں رہنے والا تصور نہیں۔
یہ افغانستان میں سوویت یونین کی آمد کے بعد مسلم ملکوں کی علت بن گیا، لیکن سوویت افواج کا انخلاء اور طالبان اور القاعدہ کا ظہور ہوا تو اِس تصور کی قلت ہوگئی۔ اب اگر امریکا کو پھر ضرورت پڑی تو مذہبی کتابوں اور کلام اقبال سے برآمد کرکے اِسے پھر بروئے کار لے آیا جائے گا۔ تب تک اِسے سونے دو، استعمال ہو ہو کے بہت تھک گیا ہے یہ چارہ۔
ہمیں یقین ہے کہ فکرِ اقبال سے اتنی آگاہی نئی نسل کے لیے کافی ہوگی، اِس سے زیادہ اگر ’خوشہءِ گندم کو جلادو‘ جیسے اشعار سمجھ لیے تو یہ شناسائی ناقابل معافی ہوگی۔
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی ایک کتاب ’کہے بغیر‘ بھی شائع ہوچکی ہے۔ آپ اِس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
یہ طنزیہ بلاگ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔