پاکستان

جسٹس شوکت صدیقی کیس: اٹارنی جنرل سے 2 ہفتوں میں جواب طلب

یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور عوامی مفاد کا مقدمہ ہے جس کے دور رس نتائج ہوں گے، جسٹس اعجاز الحسن کے ریمارکس

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف مقدمے میں سپریم کورٹ نے کھلی عدالت میں مقدمہ سننے سے متعلق اٹارنی جنرل سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی زیر صدارت میں پانچ رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔

عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ اپنی نوعیت کا منفرد اور عوامی مفاد کا مقدمہ ہے اور اس کے دور رس نتائج ہوں گے۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ ہم اس مقدمے کو دفن کرنا نہیں چاہتے بلکہ اس معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف کارروائی روکنے کی استدعا مسترد

انہوں نے کہا کہ افتخار چوہدری اور جسٹس شوکت عزیز کے مقدمے میں فرق ہے، افتخار چوہدری کے مقدمے میں ریفرنس صدر نے بھیجا تھا۔

جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ ہمیں آزاد عدلیہ اور ججوں کے احتساب کے درمیان حدود کا تعین کرنا ہوگا، عدلیہ مقدس گائے ہے نہ ہی طاقت ور بیل۔

سماعت کے دوران عدالت نے ایڈووکیٹ شاہد حامد اور منیر اے ملک کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے کہا کہ مقدمے کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالتی معاون مقرر کیے ہیں۔

جس کے بعد مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

گذشتہ روز سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کردی تھی، عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ ٹکڑوں کے بجائے مقدمے کو مکمل سننا چاہتے ہیں، یہ کوئی ایسا مقدمہ نہیں جس پر حکم امتناعی جاری کیا جائے، عدالت نے مزید کہا تھا کہ اس مقدمے میں ایک سو ایک سوالات ایسے ہیں جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے، حکم امتناعی دے کر مقدمے کو دفن نہیں کرسکتے۔

یہ بھی پڑھیں: جوڈیشل کونسل کی کھلی عدالت میں کارروائی،معاملہ چیف جسٹس کے حوالے

واضح رہے کہ اسے قبل جسٹس شوکت صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ریفرنسز کے حوالے سے کھلی عدالت میں کارروائی کا مطالبہ کیا تھا، جس پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا۔

اس سے قبل 15 فروری کو جسٹس شوکت صدیقی کو اختیارات کے غلط استعمال پر شو کاز نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا، کپیٹل ڈولپمنٹ اتھارٹی کے کچھ سابق ملازمین کی جانب سے شکایت کی گئی تھی کہ جسٹس شوکت صدیقی نے مبینہ طور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔

بعد ازاں درخواست میں جسٹس شوکت صدیقی نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ جب تک یہ درخواست زیر التوا ہے سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت کو معطل کیا جائے۔

واضح رہے کہ جسٹس شوکت صدیقی نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے بعد خود کو اوپن ٹرائل کے لیے پیش کردیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ چاہے قذافی اسٹیڈیم میں ہی ٹرائل کیوں نہ چلانا پڑے وہ تیار ہیں.

مزید پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی نے خود کو اوپن ٹرائل کیلئے پیش کردیا

یہ پہلا موقع تھا کہ کسی جج نے خود کے اوپن ٹرائل کی پیش کش کی جب کہ سپریم جوڈیشل کونسل 1962 میں اپنے قیام سے اب تک ہمیشہ بند کمرے میں ہی اپنی کارروائی کرتی آئی ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جوڈیشل کونسل کو درخواست کی تھی کہ ان کے خلاف داخل ریفرنس کا اوپن ٹرائل کرکے ان کے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کی جانچ پڑتال عوام کے سامنے کی جائے۔

ان کہنا تھا کہ اگر ان کی درخواست قبول کی گئی تو وہ صحافیوں کو بھی الزامات کی جانچ پڑتال کے لیے دعوت دیں گے۔