پاکستان

جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد

ٹکڑوں کے بجائے مقدمے کو مکمل سننا چاہتے، یہ ایسا مقدمہ نہیں جسے حکم امتناع دے کردفن کردیا جائے، جسٹس گلزار کے ریمارکس

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیق کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کردی۔

واضح رہے کہ پانچ رکنی لاجر بینچ میں جسٹس گلزار احمد، شیخ عظمت سعید، دوست محمد خان، اعجازالحسن اور سجاد علی شاہ شامل ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ٹکڑوں کے بجائے مقدمے کو مکمل سننا چاہتے ہیں، یہ کوئی ایسا مقدمہ نہیں جس میں حکم امتناعی دے کر مقدمے کو دفن کردیا جائے۔

جسٹس عظمت سعید شیخ کا کہنا تھا کہ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد مقدمہ ہے، اس میں قانون کی شقوں کو چیلنج کیا گیا ہے، ہم آزاد عدلیہ ہیں، ہم مقدمے کو لٹکانے کے بجائے جلد سن کر فیصلہ دینا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں : جوڈیشل کونسل کی کھلی عدالت میں کارروائی،معاملہ چیف جسٹس کے حوالے

اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ افتخار چوہدری کے مقدمے میں بھی قانون طے نہیں ہوا تھا، یاد رکھیں کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کیس کا نمبر بھی 29 ہے۔

واضح رہے کہ پاناما اور تحریک انصاف کی درخواست کا نمبر بھی 29 تھا۔

جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے بطور ادارہ ضروری ہے کہ ہم کیس کا فیصلہ کریں، ان کا کہنا تھا کہ جب نائب قاصد کے خلاف انکوائری ہو تو آرٹیکل 10 اے کا نفاذ ہوتا ہے، نائب قاصد اورجج کے خلاف ایک ہی قانون کے تحت کارروائی ہو گی۔

سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی استدعا کی گئی جسے مسترد کردیا گیا۔

اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اس مقدمے میں ایک سو ایک سوالات ایسے ہیں جن کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے، ہمارے اشارے کو سمجھیں، حکم امتناعی کی ضرورت نہیں۔

اس موقع پر عدالت نے کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔

اس سے قبل ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے اس مقدمے کے لیے پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی نے خود کو اوپن ٹرائل کیلئے پیش کردیا

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے سپریم جوڈیشل کونسل(اسی جے سی) میں زیرالتوا ریفرنسز کے حوالے سے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ان کے مقدمے کا دفاع سینئر وکیل مخدوم علی خان کر رہے ہیں۔

اس سے قبل 2 نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ بینچ کے دو ججوں نے اس معاملے کو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کو بھیجتے ہوئے لارجر بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی تھی.

اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے بینچ نے نوٹس کیا کہ درخواست گزار جج کو کچھ تحفظات ہیں جس پر انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے 2005 کے انکوائری کے طریقہ کار (رول 13 کی شق 1) کے مطابق اسے سپریم کورٹ بھیج دیا، ساتھ ہی بینچ نے حکم دیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں سماعت نہ کی جائے۔

اس سے قبل 15 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی کو اختیارات کے غلط استعمال پر شو کاز نوٹس جاری کیا گیا تھا، کپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹٰی کے کچھ سابق ملازمین کی جانب سے شکایت تھی کہ جسٹس شوکت صدیقی نے مبینہ طور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔

درخواست میں جسٹس شوکت صدیقی نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ جب تک یہ درخواست زیر التوا ہے سپریم جوڈیشل کونسل کی سماعت کو معطل کیا جائے۔

پٹیشن میں سپریم جوڈیشل کونسل کے 2005 کے انکوائری کے طریقہ کار کے پیرا گراف 13 کے مطابق ان کیمرا سماعت کو آئین کے آرٹیکل 4، 10 اے،18 اور 25 کے خلاف قرار دیا، کیونکہ اس سے ٹرائل فیس کرنے والے کی زندگی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پٹیشن میں زور دیا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اسے سمجھنے میں غلطی کی اور اس سے ادارے کی حرمت اور درخواست گزار کے وقار پر اثرات مرتب ہوں گے، ان کے معاملات پر کونسل کی جانب سے تفتیش کی گئی جس میں ان کیمرا سماعت بھی متوقع تھی۔