پاکستان

معروف صحافی و اینکر حامد میر اغوا کے مقدمے میں نامزد

حامد میر اور عثمان پنجابی نےاپنے ’نامعلوم‘ ساتھیوں کےساتھ مل کر خالد خواجہ کو اغوا کیا اور قتل کردیا تھا، درخواست گزار

اسلام آباد پولیس نے ملک کے معروف سینئر صحافی اور ٹی وی اینکر حامد میر کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کرلیا۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ کیس صحافی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں درج کیا گیا، یہ فیصلہ عدالت نے مارچ 2010 میں اسلام آباد کے سیکٹر جی 10/2 کے ایک مکان سے مبینہ طور پر اغوا ہونے والے خالد خواجہ کی اہلیہ شمامہ ملک کی جانب سے دائر پٹیشن پر کچھ روز قبل ہونے والی سماعت کے دوران دیا تھا۔

مذکورہ ایف آئی آر رامنا تھانے میں خالد خواجہ کی اہلیہ کی شکایت پر درج کی گئی، جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ حامد میر اور عثمان پنجابی نے اپنے ’نامعلوم‘ ساتھیوں کے ہمراہ مل کر ان کے خاوند خالد خواجہ کو اغوا کیا تھا۔

مزید پڑھیں: نواز شریف نے اسامہ بن لادن سے پیسے لیے تھے، اہلیہ خالد خواجہ

پولیس کو دی گئی درخواست میں کہا گیا کہ، بعد ازاں خالد خواجہ کو شمالی وزیرستان لے جایا گیا اور پھر 30 اپریل 2010 کو ان کی گولیوں سے چھلنی لاش کرم کوٹ سے برآمد ہوئی، خالد خواجہ کی لاش کو اسلام آباد منتقل کیا گیا تاہم اس کا پوسٹ ماٹم نہیں ہوا، درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’میرے بیٹے نے شالیمار تھانے میں شکایت درج کرانے کی کوشش کی تاہم انہوں نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کیا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس نے ان کے بیٹے کا مؤقف بھی نہیں سنا‘، خالد خواجہ کی اہلیہ نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا کہ ان کے مقتول خاوند اور حامد میر کے درمیان لال مسجد آپریشن کے معاملے پر اختلافات قائم ہوئے تھے۔

ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ کچھ وجوہات کی بنا پر حامد میر اور عثمان پنجابی نے خالد خواجہ کو اغوا کیا اور انہیں قتل کردیا، اس کے علاوہ حامد میر اور عثمان پنجابی کے درمیان بات چیت کی ایک آڈیو ٹیپ بھی شالیمار تھانے کے ریکارڈ میں موجود ہے۔

جب اس حوالے سے حامد میر سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ بظاہر مجھے بلیک میل کرنے کے لیے سیاسی بنیادوں پر قائم کیا جانے والا کیس ہے، انہوں نے شکایت کی کہ عدالت نے ان کا مؤقف جانے بغیر ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس کو حکم دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'لال مسجد آپریشن کے ذمے دار مشرف اور شوکت عزیز تھے'

خیال رہے کہ اس سے قبل 29 فروری 2016 کی ڈان کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق افسر خالد خواجہ کی اہلیہ شمامہ خالد کی تحریر کردہ کتاب ’خالد خواجہ: شہیدِ امن‘ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کے خاوند کو پاکستانی طالبان کے ایک ذیلی گروپ نے اُس وقت قتل کیا جب وہ شورش زدہ قبائلی علاقوں میں امن مشن پر تعینات تھے۔

خالد خواجہ، کرنل (ر) امام اور برطانوی صحافی اسد قریشی کے ہمراہ شمالی وزیرستان گئے تھے، خالد خواجہ اور کرنل امام کو دہشت گردوں نے قتل کردیا جبکہ اسد قریشی کو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کردیا گیا۔

واضح رہے کہ اس وقت کی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ خالد خواجہ اور دو دیگر افراد 26 مارچ 2010 کو شمالی وزیرستان سے لاپتہ ہوئے اور چند ہفتوں بعد ان کی لاش برآمد کی گئی تھی۔

کتاب میں لکھا گیا کہ خالد خواجہ ڈرون حملوں کی تباہ کاریوں کی عکس بندی کے لیے وزیرستان گئے تھے۔

مزید پڑھیں: 'اسامہ بن لادن سےفنڈز وصولی':پی ٹی آئی وزیراعظم کےخلاف میدان میں

کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خالد خواجہ مارچ 2010 کے اوائل میں شمالی وزیرستان گئے تھے، جہاں انہوں نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ولی الرحمٰن محسود، حکیم اللہ محسود اور حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر شیر خان سے ملاقات کی۔

شمامہ خالد نے اپنی کتاب میں ہندوستانی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور امریکا کی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) پر خالد خواجہ اور کرنل امام کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔