اگر آپ کبھی نیشنل ہائی وے پر گھارو کے پاس سے گزریں ہیں تو آپ کو دھندھلے آسمان تلے بجلی کو ترستے گرڈ میں میگا واٹس کا اضافہ کرنے کی کوشش کرتی عظیم الجثہ ہوائی چکیاں دکھائی دیتی ہوں گی لیکن سندھ میں ہائی وے سے تھوڑا دورایک چھوٹے سے گاؤں اشک جوکھیو کے رہنے والوں کو بجلی کا انتظار نہیں، اگرچہ یہ گاؤں نیشنل گرڈ ٹرانسمیشن لائن سے زیادہ دور نہیں لیکن پھر بھی انہیں بجلی کا انتظار نہیں۔
کچھ ماہرین کا تخمینہ ہے کہ صوبہ سندھ میں توانائی کی فراہمی میں 1,000 میگا واٹ کی کمی ہے، جو گرمیوں میں مزید بڑھ جاتی ہے، جس کا مطلب بجلی کی کئی گھنٹوں کی لوڈشیدڈنگ اور بجلی کی فراہمی میں تعطل ہے اور اس سے زندگی کے تمام کاروبار ٹھپ ہوکر رہ جاتے ہیں۔
اشک جوکھیو گاؤں کے اکثر مرد دن کے وقت قریبی صنعتی علاقوں گھارو، دھابیجی، مکلی اور ٹھٹہ میں مزدوری کرتے ہیں، بعض تو روزی کمانے پاکستان کے معاشی حب کراچی تک چلے جاتے ہیں، جہاں روزگار کے بہتر مواقع موجود ہیں، لیکن کراچی میں زندگی سخت ہے، ملازمت کی تلاش میں آنے والے کچی بستیوں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں جہاں نہ پانی ہے نہ بجلی جبکہ رہائش کے لیے مکانات گنجان اور گھٹن زدہ ہیں۔
اس کے علاوہ زندگی کی باقی ماندہ بنیادی ضروریات، خاص کر کھانا، گاؤں کے مقابلے میں زیادہ مہنگا ہے، جس وجہ سے وہاں کا رخ کم کرتے ہیں۔
سندھ کے ساحلی اور ڈیلٹائی علاقوں میں سرگرم عمل انڈس ارتھ ٹرسٹ (IET) ایسے پروگراموں کا حصّہ رہا ہے، جن میں گرین انرجی کو فروغ دے کر طرز زندگی بہتر بنایا جا رہا ہے، اسی مقصد کے لیے انڈس ارتھ ٹرسٹ نے ساحل سمندر کے نزدیک تجرباتی شمسی اور ہوائی نظام کے ذریعے گھارو، دھابیجی، مکلی اور ٹھٹھہ میں چھوٹے گرڈ بنائے ہیں۔
کم لاگت اور آسان تنصیب و دیکھ بھال کی وجہ سے شمسی توانائی ایک مقبول نعم البدل رہا ہے، پاکستان کے دور درازعلاقوں میں بجلی کے حصول کا واحد ذریعہ شمسی توانائی ہے، جس سے گھر اور سڑکیں روشن ہیں۔
اس پروجیکٹ کا ماڈل انتہائی سادہ ہے، تشخیص برائے ضرورت کے سروے کے مطابق دیہاتوں کو منتخب کیا گیا، گاؤں والوں نے 19 کلو واٹ کے چھوٹے گرڈ کی تنصیب کے لیے زمین اور افرادی قوّت بھی فراہم کی، یہاں ہر گھر میں 2 بتیوں کے لیے کنکشن دیئے گئے ہیں، ساتھ ہی گاؤں کے مرکز اور سڑکوں کے لیے بھی روشنی کے کنکشن دیئے گئے جبکہ اس پروجیکٹ کی ابتداء پاکستان تخفیف غربت فنڈ نے IET کے ذریعے کی۔