الطاف حسین کے خلاف شواہد اکھٹے کرنے کیلئے برطانیہ اور امارات سے رابطہ
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی قائد الطاف حسین کے خلاف مبینہ طور پر دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے الزامات سے متعلق شواہد اکھٹے کرنے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سے رابطہ کرلیا۔
گزشتہ روز انسداد دہشت گردی عدالت نے الطاف حسین کے خلاف اسی حوالے سے دائر کیس میں قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے کو ایم کیو ایم کے قائد کو 15 نومبر کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔
سرفراز مرچنٹ کی جانب سے گزشتہ ماہ الطاف حسین کے خلاف ایف آئی آر درج کرائے جانے کے بعد ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں الطاف حسین کے خلاف عبوری چارج شیٹ پیش کی گئی تھی جس میں ان کے خلاف ایف آئی اے کی اب تک کی کارروائی کے حوالے سے تفصیلات عدالت فراہم کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: الطاف حسین کے خلاف منی لانڈنگ کا مقدمہ
چارج شیٹ میں میں بتایا گیا تھا کہ غیر قانونی رقوم کی ترسیل میں ایم کیو ایم کے فلاحی ادارے خدمت خلق فاونڈیشن (کے کے ایف) کو استعمال کیا گیا اور ایم کیو ایم کے بانی قائد نے مبینہ طور پر بھارت سے پاکستان میں غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے فنڈز حاصل کیے۔
واضح رہے کہ چارج شیٹ کو لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کی تحقیقات کو دیکھتے ہوئے تیار کیا گیا۔
الطاف حسین کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والے سرفراز مرچنٹ ان 6 ملزمان میں شامل ہیں جن سے اسکاٹ لینڈ یارڈ نے لندن میں منی لانڈرنگ کی تحقیقات کی تھیں جبکہ تمام ملزمان کے خلاف تحقیقات کو گزشتہ برس اکتوبر میں ختم کردیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کےخلاف منی لانڈرنگ کیس ختم
ایف آئی آر میں کے کے ایف کے بینک اکاؤنٹس سے غیر قانونی طور پر رقم کی منتقلی کے حوالے سے کراچی کے ڈپٹی میئر سمیت 5 افراد، سینیٹر بابر غوری، خواجہ سہیل منصور، خواجہ ریحان اور سینیٹر احمد علی کے نام منظر عام پر آئے تھے اور بتایا گیا کہ یہ رقم ان افراد کے اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کی جاتی تھی۔
ایف آئی اے کی چارج شیٹ میں مزید کہا گیا کہ طارق میر اور محمد انور بھی مبینہ طور پر ایم کیو ایم کے بانی قائد کے جرم میں شراکت دار ہیں۔
چارج شیٹ میں بتایا گیا کہ کے کے ایف فنڈز کو فلاحی سرگرمیوں میں استعمال کرنا چاہیے تھا لیکن فنڈز کا بڑا حصہ الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے برطانیہ اور پاکستان میں وزیروں، سینیٹرز اور ڈپٹی میئر جبکہ برطانیہ کے مختلف اکاؤنٹس میں وقتاً فوقتاً ٹرانسفر کیا جاتا رہا۔
دوسری جانب چارج شیٹ میں تمام شریک مشتبہ افراد کے خلاف خاموشی اختیار کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس : الطاف حسین لندن میں گرفتار
چارج شیٹ میں مزید بتایا گیا کہ میٹرو پولیٹن پولیس نے ایم کیو ایم کے بانی قائد کے گھر سے ایک بڑی رقم رنگے ہاتھوں پکڑی تھی جس کے بعد لندن کی پولیس کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ کو فنڈز بھارتی حکومت کی جانب سے غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے دیئے جارہے تھے۔
میٹرو پولیٹن پولیس نے مزید بتایا کہ تفتیش کے دوران طارق میر اور محمد انور نے دعویٰ کیا کہ بھارتی حکومت سے فنڈز لیے جاتے ہیں۔
تاہم ایف آئی اے کی عبوری رپورٹ میں دونوں افراد کو الطاف حسین کا کاروباری پارٹنر بتایا گیا اور کہا گیا کہ ایم کیو ایم نے الیکشن کمیشن میں اپنے اثاثے تک ظاہر نہیں کیے۔
میٹرو پولیٹن پولیس کی جانب سے کی گئی کارروائی کی رپورٹ کے مطابق، ایم کیو ایم نے ان فنڈز کے ذریعے 40 لاکھ روپے کا اسلحہ خریدا تھا جو پاکستان میں مختلف چھاپوں کے دوران بر آمد کیا گیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ ایم کیو ایم کے پاکستان میں ظاہر نہ کیے گئے بینک اکاونٹس کو منی لانڈرنگ کے لیے استعمال گیا اور ان فنڈز کو غیر قانونی سرگرمیاں جن میں بھتہ، ٹارگٹ کلنگ، غیر قانونی چندہ اور اغوا برائے تاوان کے ذریعے حاصل کیا جاتا رہا۔
یہ رپورٹ 3 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی