پاکستان

جوڈیشل کونسل کی کھلی عدالت میں کارروائی،معاملہ چیف جسٹس کے حوالے

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی درخواست پر لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے چیف جسٹس کو معاملہ تین رکنی بینچ نے بھجوایا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کھلی عدالت میں کرنے کے لیے دائر کی گئی درخواست پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کی۔

بینچ نے لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو بھجواتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو نوٹس جاری کر دیئے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے کھلی عدالت میں ٹرائل کی درخواست پر فیصلے تک سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکنے کی استدعا پر وفاق کو بھی نوٹس جاری کردیا گیا۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کو دوبارہ جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ 'فوری طور پر کارروائی روکنے کا حکم نہیں دے سکتے'۔

جسٹس شوکت عزیز کے وکیل نے کہا کہ آئین، سپریم جوڈیشل کونسل کو قوانین بنانے کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے کونسل کے قواعد آئین سے متصادم ہیں، جبکہ جوڈیشل کونسل کو صرف ضابطہ اخلاق بنانے اختیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایک جج کے خلاف ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) کو ڈانٹنے کے الزام پر انکوائری شروع ہوئی جس پر جج نے استعفیٰ دیا تو میڈیا نے کرپشن پر مستعفی ہونے کا لیبل لگا دیا۔

انہوں نے کہا کہ ٹرائل کھلی عدالت میں ہو تو مکمل سچ عوام کے سامنے آئے گا۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آدھا سچ ہمیشہ تباہ کن اور خطرناک ہوتا ہے، جبکہ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے تحفظ کے لیے سماعت ان کیمرہ ہوتی ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل نے کہا کہ میرے موکل کو یہ تحفظ نہیں چاہیے۔