نقطہ نظر

مرغا بننے کی سزا کس نے اور کیوں دی؟

ہم قیدی ہوتے ہوئے بھی اس خوش فہمی میں مُبتلا ہیں کہ ہم آزاد ہیں اور میرے نزدیک ہماری بدحالی کی وجہ ہماری یہ خوش فہمی ہے

انہیں مرغا بننے کی سزا کس نے اور کیوں دی ہے؟

امیر محمد خان

اس میں کوئی شک نہیں کہ فن صرف تخلیق یا انسانی روح کو تسکین دینے کا ہی نام نہیں بلکہ آرٹ انقلاب، مزاحمت، احتجاج کا پیغام دینے کا بھی ذریعہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں فن اور فنکار بھی اپنے پیغامات اپنے اپنے فن پاروں کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

دراصل فن کا جنم تصورات، خیالات، خواہشات، بے چینی، درد اور خوشی کے جذبات سے ہوتا ہے۔ جب کسی ایک فنکار کے تصورات، کیفیات یا جذبات کو شکل ملتی ہے تو ہی فنکار کے روح کو تسکین پہنچتی ہے، کبھی کبھی کسی ایک فنکار یا تخلیق کار کے خیال یا تصور کی روح کو کوئی دوسرا فنکار اپنے تخلیق کردہ فن کے جسم میں قید کرنے کی کوشش کرتا ہے، اور یوں ایک خیال کو ایک سے زائد شکلوں میں اظہار نصیب ہوجاتا ہے۔

کچھ ایسی ہی کوشش سید جمال شاہ نے بھی کی ہے جنہوں نے فیض احمد فیض کی ایک نظم، نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں، کو اپنے فن کے ذریعے پیش کیا ہے، انہوں نے اپنے آرٹ ورک کا نام سیچوئیشن 101 رکھا ہے۔

سید جمال شاہ کے آرٹ ورک کی نمائش بینال ٹرسٹ کے تحت 22 اکتوبر سے 5 نومبر2017 تک کراچی کے فرئیر ہال میں جاری ہے، اس کے ساتھ ساتھ دیگر مختلف موسیقار، فنکار اور شاعر اپنی تخلیق پیش کرنے میں مصروف ہیں۔

سید جمال شاہ کے آرٹ ورک میں فیض احمد فیض کی نظم 'نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں' کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے—تصویر امیر محمد خان

سید جمال شاہ کا پورا آرٹ ورک ایک معاشرے کا عکاس ہے—تصویر امیر محمد خان

سید جمال شام کے آرٹ ورک کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ معاشرے میں ہم قیدی جیسی زندگی گزار رہے ہیں اور ایسے جی رہے ہیں کہ کسی نے ہمیں سزا دے رکھی ہو۔ نمائش میں رکھے گئے 101 مجسموں سے ہمارے معاشرے کی حقیقت عیاں ہوتی ہے۔

ان مجسموں کے درمیان ایک پنجرہ بھی بنایا گیا ہے، اُس پنجرے میں ایک پرندہ اُڑان بھرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن قید اُسے پرواز نہیں بھرنے دیتی۔

میں اس نمائش میں دوست کے ساتھ اتفاقی طور پر گیا، مرغا بنے مجسموں کے دیکھ کر اپنے اسکول کے دن یاد آ گئے.

سید جمال شاہ کے آرٹ ورک میں ایک پنجرہ اور پرندہ بھی دکھایا گیا ہے—تصویر امیر محمد خان

لیکن یہ اتفاقی دورہ کرنے کے بعد نمائش بار بار مجھے اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور اس کے بعد پانچ بار فرئیر ہال کا رُخ کیا. اسی فرئیر ہال اکثر دوستوں کی محفل بھی لگتی ہے اور ایک دوسرے کے حال احوال پوچھنے کے بعد گرما گرم موضوعات اور خاص کر معاشرے کی پستی اور بدحالی گھنٹوں زیرِ بحث رہتی تھی۔

معاشرے کی بدحالی اور پستی کی کوئی حتمی وجہ پر اتفاق کیے بغیر نشست ختم ہو جایا کرتی تھی، کیونکہ کوئی جمہوریت کے تسلسل برقرار نہ رہنے کو جواز بناتا تھا، تو کسی کی نظر میں سیاستدانوں کی نااہلی، تو کوئی تعلیم کی کمی کا رونا روتا تھا، تو کسی کو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا شکوہ تھا، کوئی عالمی اسٹیبلشمنٹ کی اس خطے میں دلچسپی کی وجہ کو بد حالی سے جوڑ دیتا تھا. کوئی عوام کے غلط فیصلوں پر سارا ملبہ ڈال دیتا تھا۔ ہم میں سے کوئی بھی کسی ایک وجہ پر متفق نہیں ہو پاتا، لیکن فریئر ہال میں جاری فن پاروں کی نمائش دیکھ کر شاید میں جان گیا ہوں کہ معاشرے کی پستی اور بدحالی کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

سید جمال شاہ نے اپنے آرٹ ورک میں مرغوں کے مجسمے رکھے ہیں—تصویر امیر محمد خان

مختلف اوقات میں نمائش کا دورہ کرنے سے یہ بات مشاہدے میں آئی کہ کروڑوں کی آبادی والے اس شہر میں سے اب تک چند ہزار لوگوں نے ہی نمائش دیکھنے آئے ہیں اور روزانہ کے حساب سے اندازہ لگایا جائے تو یہ تعداد 2 ہزار افراد سے زائد نہیں بنتی، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ان چند ہزار میں سے بھی عوام کی اکثریت مصور کے پیغام کو سمجھنے سے قاصر رہی اور لوگ اپنے اپنے فہم کے مطابق اس کی تشریح اور ایک دوسرے کو سمجھانے میں مصروف نظر آئے۔

نمائش میں آئے ہوئے افراد سے جب نمائش کے حوالے سے دریافت کیا، ذرا بتائیے کہ یہ مجسمے اس طرح کیوں رکھے گئے؟ تو اکثریت جواب دینے سے قاصر رہی اور گنتی کے لوگوں نے ہی جواب دیا کہ یہ مجسمے درحیقیت عوام ہیں جو ایک سزا بھگت رہے ہیں، لیکن اگلا سوال کہ یہ سزا کیوں بھگت رہے ہیں اور سزا دینے والا کون ہے؟ اس پر بھی چند افراد نے جواب دیا لیکن کسی کا بھی ایک جیسا جواب نہ تھا۔

بعض شہریوں نے مجسموں کے اوپر اشعار یا جملے لکھ کر اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا ہے، میں وہ اشعار اور جملے پڑھتے وقت دل ہی دل میں یہ سوچ بھی رہا تھا کہ یہ اتنی زبردست نمائش جاری ہے اور یہاں موجود بے جان مجسمے ہمیں پیغام دے رہے ہیں کہ اپ لوگوں کی زبوں حالی اور پستی کی وجہ کیا ہے، تو پھر کیوں میڈیا اس نمائش کو کوریج کیوں نہیں دے رہا ہے؟

کیا میڈیا نہیں چاہتا کہ وجہ عوام تک یہ پیغام پہنچے؟ میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ میری نظر اخبار میں لپٹے مجسمے پر لکھے شعر پر پڑی، اور مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا کہ دراصل میڈیا بھی اس معاشرے کا ہی ایک حصہ ہے اور میڈیا بھی ہمارے ساتھ سزا کاٹ رہا ہے۔

سید جمال شاہ کا آرٹ ورک میں معاشرے کے لیے ایک پیغام ہے—تصویر امیر محمد خان

دیگر مجسموں پر لوگوں کے لکھے گئے الفاظ اور اشعار پڑھ کر مجھے اپنے دوستوں کی وہ محفل یاد آ گئی، کیونکہ جن جن لوگوں نے قلم کے ذریعے مجسموں پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہ بھی میرے دوستوں کی طرح معاشرے کی زبوں حالی کی حقیقت پر تو متفق ہیں، لیکن اُس کی وجوہات پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں اور جب تک معاشرہ وجوہات پر متفق نہ ہو تو میرے خیال میں اس بیماری کا علاج ممکن نہیں ہو پائے گا۔

اخبارات میں لیپٹے مجسمے پرا یہ شعر تحریر کیا گیا ہے کہ

عمر بھر ہم یوں ہی غلطی کرتے رہے غالب

دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے

ایک جگہ یہ الفاظ تحریر ہے کہ

Do I deserve a punishment? میں سزا کا مستحق کیوں ہوں؟

ایک اور مجسمے پر یہ شعر درج ہے کہ

خاموش مزاجی تمہیں جینے نہیں دے گی

اس دور میں جینا ہے تو کہرام مچا دو

ایک جگہ لکھا ہے کہ

قدم قدم پر جنازے۔ ۔ ۔

قدم قدم پر جنازے۔ ۔ ۔—تصویر امیر محمد خان

جبکہ ایک مجسمے پر درج ہے کہ

ہم نے اب تک اپنے ملک کو کیا دیا ہے

ایک جگہ تحریر ہے کہ

کون کس کے ساتھ کتنا مخلص ہے

وقت سب کی اوقات بتا دیتا ہے

ایک مجسمے پر ایک شعر کا آخری مصرعہ لکھا ہے

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں—تصویر امیر محمد خان

اس کا پہلا مصرعہ کچھ یوں ہے کہ

یہ داغ داغ اجھالا یہ شب گزیدہ سحر

اور مجسموں پر کچھ تحاریر ایسی بھی تھیں، جس میں سیاستدانوں کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی ہے۔

ایک مجسمے پر سیاستدان کو برا بھلا کہا گیا—تصویر امیر محمد خان

نمائش دیکھنے کے بعد میرے ذہن میں مزید سوالوں نے جنم لیا کہ

اگر یہ ہمیں سزا دی جارہی ہے تو ہمارا جرم کیا ہے؟

اگرجرم ہے بھی، تو اس کی نوعیت کیا ہے؟

اور یہ سزا کب ختم ہوگی؟

مرغا بننے کی سزا بھگت رہا ایک مجسمہ آخر کون ہے؟ —تصویر امیر محمد خان

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ایک جرم بار بار دہرائے جارہے ہیں، اس لیے مسلسل سزا یافتہ ہیں؟

اگر کسی جرم کے بغیر سزا دی جارہی ہے تو پھر یہ سزا نہیں بلکہ ظلم کہلائے گا۔

وجہ جو بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام اس معاشرے میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن یہ کسمپرسی، زبون حالی اور بدحالی تب تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک ہم اس بات کا سب مل کر احساس نہ کرلیں کہ ہم اس معاشرے میں بطور سزا زندگی گزار رہے ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہے کہ ہم کھلی فضا میں سانس لیں تو سب سے پہلے ہمیں اس بات پر متفق ہونا ہوگا کہ ہم سب قیدی ہیں، یا پھر ناکردہ گناہوں کی مسلسل سزا کاٹ رہے ہیں۔

ہمارے حال کا ذمہ دار کون ہے؟ ہم اس بحث میں تو الجھتے ہیں، لیکن پھر سے ان مجسموں کی طرح مرغے بن جاتے ہیں، ہماری سوچ، اظہار اور خیال پنجرے میں قید پرندے کی طرح ہے جو پرواز چاہتا ہے، آزاد ہونا چاہتا ہے، لیکن ہم اس مقید سوچ کے آگے مرغے بنے ہوئے ہیں۔

ہمیں اپنے حالات کی حقیقت بتانے کے لیے ان مجسموں کی پِیٹھ پر قلم سے پَر بنائے گئے ہیں جو معاشرے کی اس حقییقت کو عیاں کرتا ہے کہ ہم قیدی ہوتے ہوئے بھی اس خوش فہمی میں مُبتلا ہیں کہ ہم آزاد ہیں اور میرے نزدیک ہماری پستی اور بدحالی کی بنیادی وجہ ہماری یہ خوش فہمی ہے۔

ہم ایک دوسرے سے اختلاف سے ضرور رکھیں لیکن اس سے پہلے ہمیں کمر سیدھی کر کے اُٹھ کھڑا ہونا ہوگا اپنے لیے، اپنے بچوں کی تعلیم، علاج معالجے اور مستقبل کے لیے، اور عزم کرنا ہوگا کہ اب ہم اس سوچ، اظہار اور خیال کو آزاد کریں گے اور پھر کبھی مرغے نہیں بنیں گے۔


امیر محمد خان پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، جبکہ آپ سماجی و سیاسی امور میں خاص دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

امیر محمد خان

امیر محمد خان پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، جبکہ آپ سماجی و سیاسی امور میں خاص دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔