پاکستان

نیب ریفرنس: اسحٰق ڈار کی عدم پیشی، قابل ضمانت وارنٹ برقرار

اسحٰق ڈار دل کے عارضے میں مبتلا ہیں اور 4 منٹ سے زیادہ کھڑے نہیں رہ سکتے، عدالت میں پیشی کی گئی ہسپتال کی رپورٹ

اسلام آباد احتساب عدالت نے وفاقی وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دے دیا۔

اسحٰق ڈار کے خلاف اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز کے دوران اسحٰق ڈار کے وکیل خواجہ حارث کی عدم پیشی کی وجہ سے ان کی معاون وکیل عائشہ حامد نے کیس کی پیروی کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ خزانہ کی بیرونِ ملک ہسپتال کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس کے مطابق 'وزیرِ خزانہ اس وقت بیمار ہیں اور 4 منٹ سے زیادہ کھڑے نہیں رہ سکتے'۔

عدالت کے سامنے پیش کی جانے والی میڈیکل رپورٹ میں مزید لکھا تھا کہ اسحٰق ڈار دل کے عارضے میں بھی مبتلا ہیں جبکہ ڈاکٹروں نے انہیں انجیوگرافی کروانے کی تجویز دی ہے۔

مزید پڑھیں: کیا اسحٰق ڈار آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اجلاس میں شرکت کرسکیں گے؟

نیب استغاثہ نے اسحٰق ڈار کی میڈیکل رپورٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ 'میڈیکل رپورٹ کسی نجی ہسپتال سے بنوائی گئی ہے جبکہ اسے عدالت کے قوانین کے تحت بھی عدالت میں جمع نہیں کروایا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میڈیکل رپورٹ کو عدالت میں دفتر خارجہ کی جانب سے جمع کروایا جانا تھا جو انہیں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے موصول ہونی تھی'۔

سماعت کے دوران نیب استغاثہ نے استدعا کی کہ عدات نیب کو اسحٰق ڈار کے بیرونی ممالک میں موجود اثاثوں کو منجمد کرنے کی اجازت دے۔

اسحٰق ڈار کی جونیئر وکیل عائشہ حامد نے دعویٰ کیا کہ نیب استغاثہ اسحٰق ڈار کے جن اثاثوں کو منجمد کرنے کی بات کر رہے ہیں وہ دبئی میں ہیں جو بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا سے اسحٰق ڈار کے نام پر موجود چار بینک اکاونٹس میں سے صرف ایک بینک اکاونٹ استعمال میں ہے جس میں 2 کروڑ روپے موجود ہیں جبکہ دیگر اکاونٹس میں 2 سو 32 روپے، 10 روپے اور 1 ہزار نو سو نوے روپے موجود ہیں۔

یہ بھی دیکھیں: لیگی قیادت کی لندن بیٹھک

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب نے ان اثاثوں کو بھی منجمد کرنے کا کہا ہے جو اثاثے اسحٰق ڈار پہلے ہی فروخت کر چکے ہیں جس پر استغاثہ کا کہنا تھا کہ نیب کے پاس اثاثوں کو 15 دن تک منجمد کرنے کا اختیار موجود ہے۔

استغاثہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں شہریوں کے اثاثوں کو منجمد کرنے کا اختیار نہیں لیکن عدالت اماراتی حکومت کو اثاثے منجمد کرنے کی دراخواست بھیج سکتی ہے۔

نیب پراسیکیورٹر کا کہنا تھا کہ 'عدالت یو اے ای حکومت کو درخواست بھیجے گی جبکہ وہاں کی مقامی عدالت اس پر اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے'۔

احتساب عدالت نے نیب ٹیم کی استدعا منظور کرتے ہوئے نیب کی جانب سے اسحٰق ڈار کی پاکستان میں جائیداد کو منجمد کرنے کے فیصلے کی توثیق کردی۔

خیال رہے کہ وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل نے اثاثے منجمد کرنے کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ان کے موکل کو اخراجات کی مد میں 6 لاکھ روپے ماہانہ نکلوانے کی اجازت دی جائے، تاہم عدالت نے اس درخواست کو بھی مسترد کردیا۔

عدالتی حکم کے مطابق اسحٰق ڈار کے اے جی پی آر کے علاوہ دیگر تمام بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں دائر ریفرنس کی آٹھویں سماعت میں عدم پیشی پر اسحٰق ڈار کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔

اس سے قبل اسحٰق ڈار 23 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں نجی بینک کے ملازمین عبدالرحمٰن گوندل اور مسعود غنی نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار احتساب عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ 16 اکتوبر کے دوران عدالت نے اسحٰق ڈار کے وکلا کی جانب سے ان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو 8 گھنٹے طویل سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یہ بھی یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوالا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا تھا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔