کھیل

’چیمپیئنز ٹرافی میں مزید ایک میچ ہارتے، تو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑتا‘

ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے کہا کہ پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کو بھی وہاں پہنچانا چاہتا ہوں جہاں آج ہماری ون ڈے ٹیم کھڑی ہے۔

لاہور۔ قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کو خوشگوار تجربے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیمپیئنز ٹرافی میں فتح نے قومی ٹیم کا مورال بلند کیا لیکن اگر ہم ایونٹ میں مزید ایک میچ ہارتے تو مجھے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا تھا۔

ایک خصوصی انٹرویو میں قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ نے کہا کہ سری لنکا کے خلاف ابوظہبی میں ہونے والے ٹیسٹ میچ میں شکست پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں 136 رنز کا ہدف حاصل کرنا چاہیے تھا لیکن ابھی یہ ٹیم نئے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے اور ٹیم میں توازن قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

انہوں نے مصباح الحق اور یونس خان کی کمی محسوس ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جب مصباح اور یونس جیسے کھلاڑی جاتے ہیں تو ٹیم بہت قیمتی تجربے سے محروم ہو جاتی ہے لیکن ہم صحیح سمت میں گامزن ہے کیونکہ ٹیم میں جیت کا جذبہ موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری ٹیسٹ ٹیم وہاں کھڑی ہے جہاں ایک سال قبل ہماری ون ڈے ٹیم موجود تھی اور میں ٹیسٹ ٹیم کو بھی وہاں پہنچانا چاہتا ہوں جہاں اس وقت ہماری ون ڈے ٹیم موجود ہے۔

انہوں نے کوچنگ کے تجربے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ نے کسی ایشین ٹیم کی کوشنگ نہیں کی، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے کوچنگ ہی نہیں کی کیونکہ ایشیا میں جوش، جذبہ اور صلاحیت ناقابل یقین حد تک شاندار ہے۔

اس موقع پر آرتھر نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی بھی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پی سی بی نے میری جتنی حمایت کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، انہوں نے مجھے وہ سب کرنے کی اجازت دی جو میں کرنا چاہتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ ہم درست سمت میں گامزن ہیں اور مجھے پاکستان کی کوچنگ کر کے مزہ آ رہا ہے۔

ہیڈ کوچ نے شاداب خان کو میچ ونر قرار دیتے ہوئے کہا کہ نوجوان آل راؤنڈر کی فیلڈنگ بہت بہترین ہے اور ون ڈے کرکٹ میں ہمارے وکٹ لینے کے فلسفے پر وہ مکمل طور پر پورا اترتا ہے کیونکہ وہ ایک وکٹ لینے والا باؤلر ہے جبکہ اس کی بیٹنگ بھی بہت شاندار ہے اور بہت جلد ہی بیٹنگ میں بی مزید کارہائے نمایاں انجام دے گا۔

جنوبی افریقہ کو اپنی کوچنگ میں عالمی نمبر ایک بنانے والے مکی آرتھر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے علم نہیں کہ جنوبی افریقہ آج تک عالمی کپ جیتنے میں کیوں کامیاب نہیں ہو سکا، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ہاں ہر چیز سسٹم کے تحت ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقی ٹیم دوطرفہ سیریز باآسانی جیت جاتی ہے لیکن زیادہ میچ جیتنے سے ہم صرف عالمی نمبر ایک بن پاتے ہیں اور جب بڑے میچوں کی باری آتی ہے اور کچھ مختلف سوچ کے ساتھ میدان میں اترنے کا وقت آتا ہے تو وہ ناکام ہو جاتے ہیں۔

آرتھر نے پاکستان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ چیمپیئنز ٹرافی کے پہلے میچ میں ہمیں بھارت کے ہاتھوں ایک بدترین شکست ہوئی اور اگر ہم جنوبی افریقہ کے خلاف میچ ہار جاتے تو شاید مجھے کوچ کے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑتا لیکن ہم جنوبی افریقہ کے خلاف منصوبہ بندی کر سکتے تھے کیونکہ ہمیں پتہ ہے کہ وہ کس طرح کی کرکٹ کھیلیں گے اور کیا کرنے میدان میں اتریں گے لیکن پاکستانی ٹیم کا معاملہ ایسا نہیں ہے اور وہ ایک غیرمتوقع ٹیم ہے جو چیزوں کو ہرلمحے بدلنے کیلئے میدان میں اترتی ہے۔