پاکستان

پنجاب: دھند کا معاملہ بھارتی حکام کے ساتھ اٹھانے کا فیصلہ

آئندہ 15 روز میں لاہور اور دیگر شہروں میں دُھند کی شدت انسانی برداشت سے باہر ہوجائے گی، صوبائی محکمہ ماحولیات کی وارننگ

پنجاب کے محکمہ ماحولیات (ای پی ڈی) نے وفاقی حکومت سے سرحد پار کسانوں کی جانب سے فصل کی کٹائی کے بعد بچ جانے شاخوں کو جلانے کا معاملہ بھارتی حکام کے سامنے اٹھانے کی درخواست کردی۔

ای پی ڈی کے مطابق بھارتی پنجاب میں فصل کی کٹائی کے بعد بچ جانے والی شاخوں کو جلانے کی وجہ سے پاکستانی پنجاب کے زیادہ تر علاقوں میں دُھند بڑھ رہی ہے۔

صوبائی محکمہ ماحولیات نے خبردار کیا کہ آئندہ 15 روز میں دُھند کی شدت انسانی برداشت سے باہر ہوجائے گی جس کی بڑی وجہ بھارتی پنجاب میں فصلوں کی کٹائی کے بعد اس کی باقیات جلانا ہے جس سے بڑی تعداد میں دھواں پیدا ہورہا ہے۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ پاکستانی پنجاب میں بھی فصلوں کی کٹائی کے بعد اس کی باقیات کو جلانے کا عمل جاری ہے تاہم بھارتی کھیتوں میں اس کے جلانے کی سطح خطرناک حد تک زیادہ ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب میں آلودہ دھند کی وجہ کیا؟

صوبائی محکمہ محولیات نے گزشتہ برس پاکستانی علاقوں کو پیش آنے والے مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وفاقی وزارت ماحولیاتی تبدیلی کو درخواست کی تھی کہ اس معاملے کو وزارت خارجہ کی مدد سے بھارتی حکام کے سامنے اٹھایا جائے۔

ای پی ڈی حکام نے بتایا کہ اس وقت لاہور میں صبح کے وقت دھند کی شدت زیادہ ہے تاہم یہ پورے دن جاری رہتی ہے جبکہ اس دھند کی وجہ سے شہریوں کو آنکھوں اور گلے کے انفیکشن کا سامنا ہے۔

ای پی ڈی اور محکمہ موسمیات کے مطابق لاہور کے شہریوں کو اس مرتبہ ایسی دھند کا سامنا ہے جیسا کہ انہیں گزشتہ برس 350 اسٹیل اور لوہا بنانے والی فیکٹریوں کی جانب سے ٹائر جلانے، بڑی تعداد میں سڑکوں، انڈر پاسز اور میٹرو ٹرین کی ریلوے لائن بالخصوص بھارتی پنجاب میں فصل کی کٹائی کے بعد جلائے جانے والی باقیات کے دھوئیں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔

تاہم سرکاری ذرائع نے دعویٰ کیا کہ لاہور میں شہریوں کو اس مرتبہ، گزشتہ سیزن کے مقابلے میں 50 فیصد سے کم، دھند کا سامنا ہے تاہم آئندہ 15 روز میں خشک موسم کی وجہ سے صورتحال ابتر ہو سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی قومی خلائی ایجنسی سپارکو نے اپنی سیٹلائٹ کی مدد سے بھارتی پنجاب کے کھیتوں میں تقریباً ایک لاکھ مقامات پر فصل کی کٹائی کی باقیات کو جلانے کی جگہوں کی نشان دہی کی تھی، تاہم اس مرتبہ ان کی تعداد کم ہے لیکن ان میں شدت کافی زیادہ ہے۔

اپنی جانب سے صوبائی محکمہ ماحولیات نے 350 میں سے 100 اسٹیل فیکٹریوں کو سیل کردیا تھا جبکہ شہر میں موجود ہر ٹھیکیدار کو حکم جاری کردیا ہے کہ فیکٹریوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی پر پانی کا چھڑکاؤ کریں یا پھر اسے پلاسٹک کی شیٹوں سے ڈھنکنے کے لیے اقدامات کریں تاکہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کیا جاسکے۔


یہ خبر یکم نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی