نقطہ نظر

ہمارے ’ڈکٹیٹر‘ کا بنیادی مسئلہ

ایک ڈکٹیٹرشپ ایک یا دو انتخابات تک تو باقی رہ سکتی ہے، مگر تین کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سیرل المیڈا ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں.

سب کچھ پھر واپس آئے گا۔ ڈراما، سازش اور بحران۔ مگر نسبتاً سکون کے اِس ایک ہفتے میں اچھا رہے گا اگر ہم بنیادی باتوں پر دوبارہ غور کرلیں تو۔

دو چیزیں ایسی ہیں جنہیں شاید ہی کوئی تسلیم کرنا چاہے۔

پہلی: مارشل لاء عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتا، چاہے نیت جتنی بھی اچھی کیوں نہ ہو۔ اصلاحات کو مستقل بننے میں جتنا وقت درکار ہوتا ہے، ایک ڈکٹیٹر اتنا وقت اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔

اور جیسے ہی ڈکٹیٹر جاتا ہے، اُس نے جو بھی کام کیا ہوتا ہے اُسے ریورس کردیا جاتا ہے کیوں کہ یہ سیاستدانوں کا بدلہ ہوتا ہے اور ڈکٹیٹر کی لائی گئی تمام اصلاحات کو ایک بدنما داغ سمجھا جاتا ہے۔

گورننس کی گھڑی ریسیٹ ہوجاتی ہے۔

دوسری: ہمارے ملک میں سیاست جمود کا شکار بالکل نہیں اور یہاں نئے آپشن آسانی سے مل جاتے ہیں۔ اِس لیے مستقل سیاسی قوت کا مفروضہ ایک مفروضہ ہی ہے۔

اور یہ ایک اچھی بات ہے۔ کیوں کہ نئے آپشنز اور نئی سیاسی جماعتوں کا مطلب نئے خیالات اور نئی سیاست ہے۔ اِن دونوں چیزوں، حقیقت پسندی اور رومانویت کو اگر ساتھ رکھیں تو ہمارے پاس ٹیک اوور کے خلاف ایک بہت زبردست مؤقف سامنے آتا ہے۔

اتنی محنت کیوں کریں جب اُس نے کام نہیں کرنا؟

اگر ٹیک اوور ہوا تو کیسا ہوگا؟ یہ دیکھنا نہایت آسان ہے۔ یہ مشرف کے پہلے دور، یعنی 1999 سے 2002 کے جیسا ہی ہوگا۔

اِس کی کئی وجوہات ہیں۔ مداخلت کی پوری بحث ایک نئے سسٹم کے گرد نہیں گھومتی، بلکہ موجودہ سسٹم کو تھوڑی دیر روکنے کے لیے ہے تاکہ اِسے مضبوط کیا جاسکے۔ یہیں سے خود پر حد لگا دی جاتی ہے۔

اِس کے بعد عدالت۔ ہر مارشل لاء کو قانونی تحفظ چاہیے ہوتا ہے، یہ ہماری سیاست کی بنیاد ہے اِس لیے مارشل لاء لگانے والا عدالتیں ختم نہیں کرسکتا۔

اِس سے عدالتوں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ مارشل لاء کی مدت متعین کرسکیں۔ مشرف کو 3 سال ملے اور اگلی مرتبہ یہ عرصہ صرف 2 سال ہوسکتا ہے۔

اور پھر عمران خان بھی تو ہیں۔ وہ آج تک وزیرِ اعظم نہیں بنے اور جتنے سال ایک ڈکٹیٹر منظرنامے پر رہے گا، عمران کے پاس وزیرِ اعظم بننے کے لیے اتنے ہی کم سال رہ جائیں گے۔ پی ٹی آئی کی اقتدار میں آنے کی حد درجہ بھوک انتخابات کی طرف واپسی کو یقینی بنائے گی۔

ایجنڈا کیا ہوگا؟ اِس کا بھی اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ اکتوبر 1999 میں مشرف کے 7 نکات کا ملغوبہ ہوگا جس میں داخلی دہشت گردی اور علاقائی خطرے سب سے اوپر اوپر ہوں گے۔

اِس کے بعد مارشل لاء لگانے والا کام سے لگ جائے گا۔

احتساب تیزی سے شروع ہوگا؛ ریٹائرڈ جرنیلوں اور مغرب سے تربیت یافتہ ٹیکنوکریٹس کی چھوٹی سی کابینہ نظم و ضبط نافذ کرے گی؛ اور مالیاتی ٹیم کو حکم ہوگا کہ متوسط طبقے کو خوش رکھنے کے لیے چمک دمک والی شہری ترقی لائی جائے۔

استحکام تیار کرنا نسبتاً آسان کام ہے۔

مشکل کام تو ڈھانچے میں تبدیلی لانا ہے۔ بیوروکریسی، پولیس اور مقامی حکومتیں تو عمومی نشانہ ہوتی ہیں۔ نظامِ انصاف پر ڈکٹیٹر کی اصلاحی چھری اِس لیے نہیں چلتی کیوں کہ اُسے قانونی حملوں سے بچنے اور اپنی حکومت کا جواز برقرار رکھنے کے لیے ججز کی ضرورت پڑتی ہے۔

مگر ریاست کا انتظام اور یہ عوام سے کس طرح پیش آتی ہے، اِسے تبدیل کرنا ایک طویل کھیل ہے۔ ہمارے ڈکٹیٹر کے پاس صرف شروع کے 2 سال ہی ہوں گے۔

کہہ سکتے ہیں کہ پولیس اصلاحات کو مستقل بننے میں 10 سے 15 سال درکار ہوں گے، تاکہ یہ ادارہ معنی خیز طور پر سیاست سے پاک ہوسکے اور اِس کے نتائج اتنے واضح انداز میں نظر آنے لگیں کہ عوام اصلاحات کے خاتمے کے خلاف ہوجائیں۔

مگر ہمارے ڈکٹیٹر کو صرف 2 یا 3 سال کے اندر ہی سیاسی مرحلے میں واپس آنا پڑے گا، چاہے تو وہ نئی سیاسی جماعت بنا لے یا پھر پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کرلے۔

سیاسی مرحلے کی جانب لوٹنے کا مطلب ہے کہ وہ سمجھوتے کرنے پڑیں گے جو آپ کے گورننس اور اصلاحاتی ایجنڈے پر پانی پھیر دیں گے اور آپ کے سیاسی حریفوں کو موقع ملے گا کہ وہ آپ کو سیاسی طور پر ہٹانے کے لیے کام شروع کرسکیں۔

ایک ڈکٹیٹرشپ ایک یا دو انتخابات تک تو باقی رہ سکتی ہے، مگر تین کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

کیوں کہ ڈکٹیٹر کی حکومت سے تکان، نتائج سے عوام کا ناخوش ہونا اور کیے گئے سمجھوتے اور باہر نکال دی گئی سیاسی جماعتوں کا دباؤ بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔

اپنی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے ڈکٹیٹر کو مزید سمجھوتے کرنے پڑیں گے جس سے اُس کا اصلی اصلاحاتی اور گورننس ایجنڈا مزید بکھر جائے گا۔

آخرکار ڈکٹیٹر کو جانا پڑے گا اور جیتنے والے سیاستدانوں کا پہلا کام ڈکٹیٹر کے کاموں کو ختم کرنا ہوگا۔ چلیں ہم پہلے خانے میں واپس پہنچ گئے۔

ڈکٹیٹرشپ کی لائی گئی اصلاحات کے مستقل بننے اور اُسے حاصل اقتدار کے سالوں میں یہ جو 5 سے 10 سال کا فرق ہے، یہی ڈکٹیٹرشپس کا مہلک مسئلہ ہے۔

اِس کا کوئی حل نہیں ہے۔ اصلاحات کو کم مدت میں مستقل نہیں بنایا جاسکتا اور اصلاحات کو مستقل بنانے کے لیے اقتدار سے زیادہ دیر تک نہیں چمٹا جا سکتا۔

سسٹم خود ڈکٹیٹرشپ کو عوام کی توقعات پر پورا اترنے سے روکتا ہے۔ اِس بات پر ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے۔

اِس کے بعد دوسرا رخ بھی ہے۔ پی پی پی نے 60 کی دہائی میں عروج حاصل کیا، ایم کیو ایم نے 70 کے اواخر اور 80 کی ابتداء میں اور مسلم لیگ (ن) نے 90 کے اوائل میں۔ پی ٹی آئی ملک کی تازہ ترین جماعت ہے۔

پاکستانی سیاست کی زبردست حقیقت وہ رفتار ہے جس سے نئے سیاسی آپشن سامنے آتے ہیں۔ کم و بیش ایک دہائی میں ایک بڑی سیاسی جماعت۔

کہا جاسکتا ہے کہ اگر مشرف دور نہ آیا ہوتا تو پی ٹی آئی اکتوبر 2011 کے لاہور کے زلزلے سے پہلے ہی عروج حاصل کرچکی ہوتی اور اب مسلم لیگ (ن) میں جانشینی کی جنگ پنجاب میں ایک نئی سیاسی جماعت کو جنم دے سکتی ہے۔

سیاست وہ بند اور بنیادی طور پر لچک سے عاری نظام نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ نئے آپشن سامنے آتے رہتے ہیں۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں، اگر جمہوری نظام جاری رہے تو نئی سیاسی جماعتوں اور نئی سیاست کی آمد جاری رہتی ہے۔

پی ٹی آئی، پی ایم ایل این، پی پی پی اور ایم کیو ایم، سب میں خامیاں ہیں مگر یہ سیاسی انتخاب ہیں۔ اِن میں نئی سیاسی جماعتوں یا نئی قیادتوں کا اضافہ کریں تو مقابلہ پھر اچھا لگے گا۔ ہوسکتا ہے کہ اِسی وجہ سے خود احتسابی ممکن ہوسکے۔

مگر چلیں رومانویت اور حقیقت پسندی بہت ہوگئی۔ بہت جلد ہی ہم ڈرامے، سازش اور بحران کی طرف واپس لوٹنے والے ہیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار میں 29 اکتوبر 2017 کو شائع ہوا۔

سیرل المیڈا

لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ان کی ٹوئٹر آئی ڈی cyalm@ ہے

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔