نقطہ نظر

کراچی کا پولو گراؤنڈ

پولو گراؤنڈ کب اور کیوں تعمیر ہوا اس کے بارے میں کسی کے پاس کوئی معلومات نہیں، لیکن اب یہ باغ قائداعظم ہے۔

فوٹو -- مصنف --.ضلع وسطی کے نقشے میں آپ کو باغ قائداعظم مل جائے گا لیکن اگر آپ متعلقہ علاقہ میں اسے تلاش کرنے نکلیں اور اس بارے میں کسی سے دریافت کریں تو شاید ہی آپ کو کوئی بتا پائے کہ یہ باغ کہاں ہے۔ ہاں اگر آپ پولو گراؤنڈ کا معلوم کریں تو غالباََ آدھا کراچی آپ کو اسکی لوکیشن بتا دے گا۔باغ قائداعظم یا پولو گراؤنڈ گورنر ہاوس اور دو فا ئیوا سٹار ہوٹلوں کی ہم سائیگی کی وجہ سے ریڈزون میں شامل ہونے کا شرف حاصل کر چکا ہے۔ اگر آپ کا کبھی پولو گراؤنڈ جانا ہو اور دو چار لوگ آپ کی طرف گھورتے نظر آئیں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ بے چارے ڈیوٹی پر ہوتے ہیں۔پولو گراؤنڈ کا نام پولو گراؤنڈ کب اور کیوں پڑا۔ اس بارے میں ہمارے دوست رزاق ابڑو نے یہ کہہ کہ ہماری مشکل حل کردی۔ کہ بھائی اس گراؤنڈ میں پولو ہوتی ہوگی۔ تبھی تو پولو گراؤنڈ نام پڑا ہوگا۔کراچی کے ہندؤوں کی ایک سماجی تنظیم کے عہدے دار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پولو گراؤنڈ دراصل ہندو جیم خانہ کا حصہ تھا۔ تقسیم ہند کے بعد جس طرح ہندووں کے ہاتھوں سے ہندو جیم خانہ گیا۔ اُسی طرح پولو گراؤنڈ بھی گیا۔ہم نے بہت کوشش کی لیکن ان کے دعوے کی سچائی کے بارے میں کوئی حوالہ نہیں مل سکا۔ ہمارے محقق دوست عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ تقسیم ہند کے بعد جب کراچی پاکستان کا دارلخلافہ بنا تو 14 اگست کو فوجی پریڈ پولو گراؤنڈ پر ہی ہوتی تھی۔ان کے مطابق 1965 کی جنگ میں انڈین آرمی سے چھینے گئے ہتھیاروں کی نمائش پولو گراؤنڈ میں کی گئی تھی۔ ان میں ایک ٹینک بھی شامل تھا۔ جس کا نام فخر ہند تھا۔ شاید اس وقت تک ہندوستان میں ہندی کی بہ جائے ہندوستانی بولی جاتی تھی جسے ہم اردو کہتے ہیں۔ اب تو ہم ہتھیاروں کے نام مسلم فاتحین کے نام پر غوری اور غزنوی اور ہندوستانیوں نے ترشول اور اگنی رکھنے شروع دیے ہیں۔80 سالہ سیاسی اور سماجی کارکن بابا غیاث سے جب ہم نے پولو گراؤنڈ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اپنے باقی ماندہ دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے ایک زور کا قہقہ لگایا۔ پھر ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ جب وہ اپنی ہنسی ختم کر چکے تو بولے؛"ہاں میں بھی فوجی پریڈ دیکھنے پولو گراؤنڈ جاتا تھا۔ فوجی آرکسٹرا کی دھنوں پر چاق و چوبند فوجی، پریڈ کے علاوہ اپنی جنگی مہارت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ لیکن جب آخر میں فوجی بینڈ جب انڈین گلوکار مکیش کے گائے ہوئے گانے 'میں راہی بھٹکنے والا ہوں کوئی کیا جانے انجانا ہوں' کی دھن بجاتا تھا تو پریڈ کرتے فوجیوں کی چستی میں اضافہ ہو جاتا تھا اور فضا پاکستان اور اسلام زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتی تھی"۔

فوٹو -- مصنف --.بات مکمل کرنے کے بعد بابا غیاث دوبارہ زور زور سے ہنسنے لگے۔ پولو گراونڈ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ہم کے ایم سی کے ڈائر یکٹر پارکس کے دفتر فریئر ہال گئے اور ان کے پی اے آزاد صاحب سے درخواست کی کہ پولو گراونڈ کے سلسلے میں ڈائریکٹر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔آزاد صاحب ہمیں بٹھا کر اندر چلے گئے۔ ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور وہ فوراََ لوٹ آئے اور بولے صاحب کا کہنا ہے کہ پولو گراونڈ کب اور کیوں تعمیر ہوا۔ اس کے بارے میں ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔ لیکن اب یہ باغ قائداعظم ہے۔وہاں سے مایوس ہوکر ہم پولو گراونڈ پہنچے کہ شاید کوئی معلومات مل جائیں۔ گراؤنڈ کے گیٹ پر موجود چوکیدار سے ہم نے جب اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے اپنی بلوچی آمیز اردو میں کہا؛"ابی یہ صاب لوگ کو مالوم ہوئیں گا۔ ام سے گراؤنڈ کے بارے میں پوچھو"۔میں نے ان سے سوال کیا کہ کتنے لوگ روزانہ آتے ہیں؟عزیز نے جواب دیا؛"پہلے بہت آتے تھے، واک شاک کرنے، لڑکا لڑکی لوگ بھی ادھری آتے تھے۔ ابھی بہت کم ہو گیا"۔ عزیز نے واک کے لیے آنے والوں میں کمی کا سبب ناہموار واکنگ ٹریک اور پینے کے پانی کی عدم دستیابی بتایا۔لڑکا لڑکی لوگ کی آمد میں کمی کے بارے میں انھوں نے بتایا؛"ام تو سارا دن ادھری ہوتا ہوں۔ ٹی وی شی وی دیکھنے کا ٹیم نئیں ملتا۔ بچہ لوگ نے ایک دن ام کو بتایا کہ ایک چینل پر ایک پروگرام پارکوں کے بارے میں آیا تھا۔ جس میں ایک لڑکی پارک میں بیٹھے لڑکا لڑکی لوگ سے پوچھتا ہے کہ وہ اپنا ماں باپ کو بتا کر آیا ہے۔ بس ابھی کیا بولوں، اس کے بعد لڑکا لڑکی لوگ جاستی نہیں آتا"۔ہم نے ان کی توجہ پارک میں بیٹھے دو تین جوڑوں کی طرف کروائی تو بولے؛"جانتا ہے ان کو، میاں بیوی لوگ ہے۔ روز آتا ہے"۔

فوٹو -- مصنف --.اس کے بعد ہم پارک میں داخل ہو گئے۔ 8 سے 10 مرد و خواتین واکنگ ٹریک پر مٹاپا کم کرنے کی کوشش میں سرگرم نظر آئے۔پارک کے مختلف حصوں میں بچے اور بڑے کرکٹ اور فٹبال کھیلتے نظر آئے۔ ان کھیلنے والوں کی خاص بات یہ تھی کہ بیشتر نے نماز کی سفید ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں۔ کمال یہ تھا کہ فٹبال کھیلنے والے 'ہیڈ' بھی کر رہے تھے۔ مگر مجال ہے کہ کسی کی ٹوپی گرے۔ ان تمام لوگوں کو دیکھ کر ہمیں پختون رہنماؤں کا یہ دعوی بالکل سچ لگا کہ کراچی پاکستان کی سب سے بڑی پختون آبادی ہے۔

فوٹو -- مصنف --.سینئر صحافی اور ہمارے استاد محترم حسین نقی صاحب نے پولو گراؤنڈ کے حوالے سے ہمیں بتایا کہ 1963 میں جب ایوب خان نے اپنی آمریت کو دوام دینے کے لیے کنوینشن لیگ بنائی تو اس کا پہلا جلسہ پولو گراؤنڈ کراچی میں منقد ہونا طے پایا تھا۔ایوبی آمریت کے دور میں طلباء کی جانب سے حکومت مخالف سر گرمیوں کو روکنے کے لیے یونیورسٹی آرڈینینس جاری کیا گیا تھا، جس کے تحت وائس چانسلرز کو یہ اختیار حاصل ہو گیا تھا کہ وہ کسی بھی طالب علم کو ناپسندیدہ سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہونے پر نا صرف اس کی ڈگری بلکہ داخلہ بھی منسوخ کر سکتے تھے۔نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے یہ طے کیا گیا کہ کنوینشن لیگ کے جلسے میں اس پر اور احتجاج کیا جائے گا۔ نامور سیاسی رہنما معراج محمد خان کو اس احتجاج کی قیادت سونپی گئی تھی۔معراج محمد خان نے پولو گراؤنڈ میں ہونے والے اس احتجاج کی کہانی یوں بیان کی؛"ایوب خان کے دور میں سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی تھی۔ طلبہ کے لیے دو سالہ ڈگری کورس کی بہ جائے تین سالہ ڈگری کورس متعارف کرایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فیسوں میں اضافہ اور یونیورسٹی آرڈینینس جاری کیا گیا۔ جس سے طلبہ میں شدید بے چینی پیدا ہو گئی تھی۔پولو گراونڈ کے جلسے میں احتجاج کے لیے اصل مسئلہ گراؤنڈ میں داخلے کا تھا۔ اس جلسے میں کسی بھی گڑبڑ کو روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے لیاری کے شیرو دادل کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ جن کا پورے کراچی پر رعب تھا۔ (یاد رہے داد محمد عرف دادل لیاری امن کمیٹی کے مرحوم سربراہ رحمن بلوچ کے والد تھے)ان سے رابطے کے لیے یونیورسٹی کے بلوچ طلبہ سے گزارش کی گئی۔ ان کی وساطت سے شیرو دادل طلبہ کے وفد سے ملنے کے لیے تیار ہو گئے۔ جلسے سے ایک دن پہلے طلبہ اور طالبات کا وفد لیاری پہنچا اور ان سے ملاقات کی۔ابتدا میں تو انھوں نے کسی بھی قسم کے تعاون سے انکار کیا۔ لیکن جب وفد میں شامل طالبات نے ان کے پیر چھونے کی کوشش کی تو وہ مان گئے۔ انھوں نے کہا ٹھیک ہے۔ لیکن تمہارے پاس صرف 15 منٹ ہوں گے۔ اس کے بعد کچھ نہیں کرنا۔ ہم نے سکون کا سانس لیا اوران سے جانے کی اجازت چاہی۔ اس موقع پر دادل نے ہمیں کہا بچہ لوگ باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن پولو گراؤنڈ میں گُھسو گے کیسے؟ ہم لاجواب ہو گئے۔اس کے بعد انھوں نے اپنے دو تین کارندوں سے بلوچی میں کچھ کہا۔ جو ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد وہ کارندے ایوب خان کی تصویروں والے پوسٹر، بیجز اور کافی سارے بینر لے آئے۔دادل نے کہا کہ یہ بیج لگا کر اور پوسٹر لے کر پولو گراونڈ جاؤگے تو تمھیں کوئی نہیں روکے گا۔ خیر اگلے دن ہم بیج لگا کر پوسٹرز ہاتھ میں لیے ایوب خان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے پولو گراونڈ میں داخل ہو گئے۔ کسی نے نہیں روکا۔ میں، علی مختار رضوی، سید سعید حسن اور فتح یاب خان اسٹیج پر چڑھ گئے۔اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو اور سید سعید حسن کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ ہم نے اسٹیج سے یونیورسٹی آرڈینینس، فیسوں میں اضافے اور تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف قراردادیں منظور کروائیں۔ جلسہ ہنگامے کی نذر ہو گیا۔اس کے اگلے دن ہم سب کو کراچی بدر کر دیا گیا۔ سینئر صحافی حسین نقی کے مطابق شیرو دادل نے ہمیں اس تمام کارروائی کے لیے 30 منٹ کا وقت دیا تھا ہم نے اس عرصے میں اپنا کام مکمل کر لیا تھا۔ لیکن ہمارے ایک کامریڈ مقررہ وقت کے باوجود اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔اس موقع پر انہیں ایک شخص نے روک کر کہا کہ جناب آپ کا وقت پورا ہو گیا ہے۔ کامریڈ نے غصّے سے پوچھا تم کوئی شیرو دادل ہو؟ انھوں نے کہا ہاں ہم ہی ہیں جس کے بعد کامریڈ وہاں سے بھاگ کر ہانپتے کانپتے میرے پاس پہنچے اور پورا واقعہ بیان کیا۔ میں نے انھیں تسلی دی کہ ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ان کی حالت غیر تھی، چار دن تک بخار کی کیفیت میں رہے اور اکثر سوتے میں چلا کر بچاؤ، بچاؤ کہتے اٹھ بیٹھتے۔ معراج محمد خان کے مطابق انقلابی شاعر حبیب جالب نے اس احتجاج اور کراچی بدر کرنے پر ایک قطعہ لکھا تھا؛فضا میں جس نے بھی اپنا لہو اچھال دیا ستم گروں نے اسے شہر سے نکال دیا یہی تو ہم سے رفیقان شب کو شکوہ ہے کہ ہم نے صبح کے رستے پہ خود کو ڈال دیامحقق عقیل عباس جعفری اپنی کتاب پاکستان کرانیکل کے صفحہ نمبر 205 پر کراچی کے بارہ طلبہ کی شہر بدری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ؛12 ستمبر 1962 کو گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان (نواب کالا باغ) نے ضلع کراچی کے بارہ طلبہ کو مغربی پاکستان کے پبلک سیفٹی آدڑینینس کے تحت شہر بدر کرنے کے احکام جاری کر دیے۔ ان احکام میں کہا گیا تھا کہ یہ طلبہ مسلسل ایسی سرگرمیوں میں حصّہ لے رہے تھے جو امن عامہ اور تعلیمی نظم و ضبط کے لیے نقصان دہ ہیں۔ان احکام کے تحت کر اچی کے جن بارہ طلبہ کو شہر بدر کیا گیا تھاان کے نام تھے فتح یاب علی خان، حُسین نقی، سید سعید حسن، معراج محمد خان، خرّم مرزا، نواز بٹ، واحد بشیر، جوہر حسین، علی مختار رضوی، آغاز جعفری، نفیس صدیقی اور امیر حیدر کاظمی۔کراچی سے شہر بدر ہونے کے بعد ان طلبہ کے لاہور، حیدرآباد، پشاور، راولپنڈی اور ملتان میں داخل ہونے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ جس کے باعث ان طلبہ نے سکھر میں رہائش اختیار کی۔ایک ماہ بعد 15 اکتوبر 1962 کو ان طلبہ کی شہر بدری کے احکام واپس لے لیے گئے۔ جس کے بعد 11 اکتوبر کو یہ طلبہ تیزرو (لاہور سے کراچی آنے والی ایک ٹرین) کے زریعے کراچی واپس پہنچ گئے۔کراچی پہنچنے پر کراچی کی عوام نے ان کا پرجوش خیر مقدم کیا اور انھیں جلوس کی شکل میں ان کے گھر تک پہنچایا گیا۔ انھوں نے رئیس امروہی کا ایک قطعہ بھی اس حوالے سے لکھا ہے جس کی تاریخ اشاعت نہیں لکھی؛تم نے ثابت کیا عزم و عمل سے اپنے زندگانی ہے حیاتِ عملی زندہ باد تم ہو ایثار و صداقت کا ہراول دستہ طالبات و طلبہ! زندہ و تابندہ بادپولو گراؤنڈ کی از سر نو تزئین و آرائش کا کام جاری ہے۔ لیکن ہمیں افسوس ہے کہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کے قیام اور تاریخ کے بارے میں کچھ نہ معلوم کر پائے۔ہمارے ایک صحافی دوست نعمت سے جب ہم نے اس بارے میں بات کی تو انھوں نے بتایا کہ پولو گراؤنڈ کے بعد اس کا نام معروف سیاسی رہنما حیات شیرپاؤ کے نام پر شیر پاؤ گارڈن رکھا گیا تھا۔ (حیات محمد شیرپاؤ 80 کی دہائی میں سابقہ صوبہ سرحد اور حالیہ خیبر پختون خواہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نا مور رہنما تھے۔ جنھیں ایک بم دھماکے میں قتل کر دیا گیا تھا).بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اسے باغ قائد اعظم کا نام دیا گیا تھا۔ اس کی تصدیق پولو گراؤنڈ کے چوکیدار عزیز بلوچ نے بھی کی لیکن پولو گراونڈ کی تاریخ اور قیام کراچی کے بدلتے ہوئے موسم کی طرح بدلتے رہے ہیں۔ لیکن اس کا ریکارڈ کسی بھی سرکاری دفتر میں دستیاب نہیں۔ یا وہ اس کو تلاش کرنے کے لیے اپنی توانائی استعمال نہیں کرنا چاہتے۔پولو گراونڈ شیر پاؤ گارڈن ہو یا باغ قائد اعظم لیکن وہ جو کہتے ہیں زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو تو زبان خلق میں یہ آج بھی پولو گراونڈ ہی ہے۔ اگر کبھی شک ہو تو آزما کر دیکھ لیں۔

  اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان      کے کونسل ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔