نقطہ نظر

سندھی صحافت کی جدوجہد

مارشل لا حکومت نے سندھی پریس پر ہر قسم کی پابندیاں عائد کر دی تھیں، بالکل اسی طرح جیسے قومی میڈیا پر عائد کی گئی تھیں۔

1947 کے دنوں میں جب آزادی کی راہیں ہموار کی جا رہی تھیں، تب مسلمانوں کے لیے الگ وطن بنانے کی خاطر جاری جدوجہدِ آزادی میں سندھی صحافت نے بھی اپنا خوب کردار کیا۔ حصولِ آزادی کے بعد علاقائی اخبارات مزید بامقصد ہوگئے اور معاشرے کی نگرانی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر توجہ مرکوز کرلی۔

تقسیم ہند کے بعد چند لکھاریوں اور صحافیوں کی ہجرت کی وجہ سے اخباروں کو کچھ عرصے کے لیے تو زوال آیا لیکن پھر جلد ہی نئے اشاعتی ادارے منظر عام پر آنے لگے۔ حالانکہ صوبے بھر کے مختلف شہروں سے اخبارارت اور رسائل نکلنا شروع ہوگئے تھے لیکن پھر بھی 1950 کی دہائی میں کراچی ہی سندھی صحافت کا مرکز بنا رہا۔

آزادی کے وقت کراچی سے صرف ایک ہی سندھی روزنامہ 'الواحد' نکلتا تھا جسے حاجی عبداللہ ہارون نے مارچ 1920 میں نکالنا شروع کیا تھا۔ تقریباً ربع صدی کے بعد حیدرآباد سے ہلالِ پاکستان شائع ہونے لگا۔ 1950 کی دہائی کے اوائل میں کراچی سے نوائے سندھ، نئیں سندھ اور مہران شائع ہونا شروع ہوئے جبکہ کاروان حیدرآباد سے نکلا کرتا تھا۔

1950 کے اواخر کی ابتدا میں عبرت اور خادمِ وطن ہفتہ وار کے بجائے روزناموں میں تبدیل ہوگئے۔ بالائی سندھ میں نوائے انقلاب اور نجات سکھر سے نکلتے تھے، سارنگ، نوائے سندھ اور اتحاد جیکب آباد سے نکلا کرتے تھے، جبکہ ناظم شکار پور سے نکلتا تھا۔

1970 کی دہائی کے وسط میں حیدرآباد سے مزید دو اخبارات نکلنا شروع ہوئے جن میں آفتاب اور سندھ نیوز شامل تھے۔ قاضی اسلم اکبر نے 1991 میں کاوش نکالنا شروع کیا، جو کہ سندھی زبان میں کثیرالاشاعت اخبار بن گیا اور 136 سالہ سندھی صحافت کی تاریخ کا کامیاب ترین اخبار بھی بنا۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی سندھی پریس کا مرکز ہونے کی حیثیت کھو چکا تھا، لیکن عوامی آواز، جاگو، کاوش اور برسات کی ابتداء کے بعد کھوئی ہوئی حیثیت بحال ہونے لگی تھی مگر بعد میں یہ اخباراک حیدرآباد منتقل ہوگئے تھے۔

آزادی کے بعد چند برسوں تک ہی پریس کی آزادی رہی۔ الواحد نے بند ہونے سے قبل دو بار پابندی کا سامنا کیا۔ کاروان اِس معاملے میں خوش قسمت رہا کہ اُسے صرف ایک ہی بار پابندی نصیب ہوئی لیکن کچھ عرصے بعد ہی اِس اخبار کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1950 کی دہائی میں سندھ کے اندرون یونٹ کی سخت مخالفت کی جا رہی تھی، جذبات کا عکس اُس وقت کے اخبارات میں بھی نظر آ رہا تھا اور یوں اِن اخبارات نے ان لوگوں کا عذاب جھیلا جنہیں ون یونٹ عزیز تھا۔ اُن دنوں کاروان کو دو بار بند کیا گیا تھا۔

مارشل لاء حکومت نے سندھی پریس پر ہر قسم کی پابندیاں عائد کردی تھیں، بالکل اُسی طرح جیسے قومی میڈیا پر عائد کی گئی تھیں۔ ایک وقت پر تو باضابطہ خط و کتابت میں سندھ لفظ کے استعمال پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ جبکہ سندھ کے بجائے 'جنوبی حصہ اور زیریں انڈس ویلی،‘ لکھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ تین بڑے سندھی اخباروں کے مونوگرام میں سے سندھ کا نقشہ بھی خارج کروا دیا گیا تھا۔ سرکاری اشتہارات اور اخباری کوٹے میں کمی کچھ ایسے ہتھکنڈے تھے جنہیں پریس کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ مختصراً کہیں تو کسی قسم کی مخالفت دکھانے والے اخبارات کے خلاف ہر قسم کے من مانے قوانین استعمال کیے جا رہے تھے۔

1970 کی دہائی میں جمہوریت کا سورج طلوع ہوا جس نے اُمید کی کرن پیدا کی کہ بالآخر سیاہ رات اختتام کو پہنچی، لیکن جموریت کی بحالی کے ساتھ ہی پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی حکومت کے دوران ہی 32 پرنٹنگ پریس کو بند کروا دیا گیا اور متعدد سندھی اخبارات اور جرائد کی اشاعت بند ہوگئی۔ اِن میں ادبی جرائد جیسے روح رہان اور شوبز میگزین فلمی دنیا بھی شامل تھے۔

صحافتی پابندیوں کی بات آئے تو جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت اِن تمام سے زیادہ بے رحم تھی۔ سینسرشپ قوانین کے تحت ہر تخلیقی تحریر پر بے معنی پابندیاں لگائی جاتیں۔ صرف 'نئیں زندگی' اِس کاٹ پیٹ سے بچا رہا کیوں کہ اِس کا ایک مخصوص نظریہ تھا اور وہ تخلیق و تحقیق دونوں سے دور رہتا تھا۔

اخبارات کے علاوہ سندھی ہفت روزوں اور ماہناموں کی روایت بھی نہایت مضبوط ہے۔ لطیف، آج کل، اہلِ قلم، لعل اور آفتاب نے آزادی کے اوائلی سالوں میں اپنی چھاپ چھوڑی۔ سندھی ادبی بورڈ نے 1954 میں ایک سہہ ماہی جریدہ 'مہران' شائع کرنا شروع کیا تھا جسے آج تک بھی ایک باوثوق ادبی جریدہ مانا جاتا ہے۔ اِس کا سالہاسال بلاتعطل اشاعت کا ریکارڈ ہے اور یہ تحقیق اور تخلیقی تحاریر کے لیے ایک اچھا فورم ہے۔ تقریباً تمام مشہور سندھی لکھاری اِس میگزین سے وابستہ رہے ہیں۔ 'سہنی' جو 1967 میں نہایت کم سرمائے سے شروع کیا گیا تھا، جلد ہی اپنی تخلیقی اشاعتوں کی وجہ سے ایک بڑے حلقے کو اپنا قاری بنانے میں کامیاب ہوگیا۔

اگر سیاسی جریدوں کی بات کی جائے تو 'اگتے قدم' اور 'نئوں نیاپو' نے بھی اپنی جگہ بنائی مگر بدلتے حالات میں باقی نہ رہ سکے اور سیاسی وجوہات کی بناء پر اپنی اشاعتیں بند کرنی پڑیں۔

مجموعی طور پر سندھی اخبارات و رسائل کی کائنات پاکستان کی کسی بھی علاقائی زبان کے مقابلے میں زیادہ وسیع ہے۔ اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ مسلسل پھیل رہی ہے۔


لکھاری سینیئر صحافی ہیں۔


یہ مضمون 'ڈان اور پاکستان کے 70 سال' کے تحت شائع ہونے والی خصوصی رپورٹس کا حصہ ہے۔ مزید یہاں پڑھیں۔

شیخ عزیز
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔