لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز (لمز) کے شعبہ برائے ہیومینٹیز، سوشل سائنسز اور لاء کے ڈین رہ چکے ہیں۔
کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ تنقید جائز ہو تو عدلیہ اور فوج پر بھی کی جاسکتی ہے مگر ایک معروف وزیر نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ پارلیمنٹ بھی اتنی ہی معزز ہے لہٰذا چیلنج کیے جانے سے بالاتر ہے۔
آگے کیا ہونے جارہا ہے اِس کا انتظار کرتے کرتے ہمیں ایک اور وزیر کی خبر لینے کے لیے مزید انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ میں اُس خبر کی بات کر رہا ہوں جس میں وزیرِ صنعت، تجارت و سرمایہ کاری نے پنجاب اسمبلی کو آگاہ کیا ہے کہ ’مافیا کی چالوں کے باوجود ٹماٹر درآمد نہیں کیے جائیں گے۔‘
اطلاعات کے مطابق وزیر نے تفصیل میں جاتے ہوئے کہا کہ ’خیبر پختونخوا سے آنے والے ٹماٹر شہر میں 70 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب ہیں، اور تب تک فروخت ہوتے رہیں گے جب تک سندھ سے نئی رسد پنجاب پہنچ کر قیمتوں میں استحکام نہیں لے آتی۔‘
اِس پالیسی کا جواز وزیر کے ایک براہِ راست جملے میں ہے: ’اپنے کسانوں کے بجائے غیر ملکی کسانوں کو فائدہ کیوں پہنچایا جائے؟‘ وزیر کے مطابق ’ایک بااثر مافیا‘ ہندوستان سے ٹماٹروں کی درآمد کی بحالی چاہتی ہے، جو کہ بالکل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
اِن وزیر اور اِنہیں وزارت دینے والے پارٹی سربراہ کے سر پر ڈھیروں سڑے ہوئے ٹماٹر پھینکنے چاہیے۔ تصور کریں کہ 21ویں صدی کا وزیرِ تجارت عوامی سطح پر کہہ رہا ہے ’اپنے کسانوں کے بجائے غیر ملکی کسانوں کو فائدہ کیوں پہنچایا جائے؟۔‘ اب ذرا منطق کا استعمال کرتے ہوئے اِس جملے پر غور کریں۔ اگر ہم نے حقیقتاً یہی کیا تو تمام بین الاقوامی تجارت بند ہوجائے گی کیوں کہ تجارت کی ہی تب جاتی ہے جب دوسرے ممالک وہ چیزیں زیادہ معیاری بنائیں یا کم قیمت پر فروخت کر رہے ہوں۔
اِس کے علاوہ اِس دلیل کے ساتھ کئی دیگر مسائل بھی ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ نہایت مضحکہ خیز بات ہے کہ یہ بیان ایک ایسے ملک کے وزیرِ تجارت نے دیا ہے جہاں سوئیاں چین سے درآمد کی جاتی ہیں اور کچرا اُٹھانے کا کام ترک کمپنیوں کے سپرد ہے۔ اِس شعبے اور کئی دیگر شعبوں میں جو فائدہ غیر ملکیوں کو پہنچ رہا ہے، اُس پر کوئی کیوں نہیں بولتا؟
اِس کے علاوہ یہ ’ہمارے اپنوں‘ سے اچانک محبت صرف کسانوں تک کیوں محدود ہے؟ صارفین کا کوئی کیوں نہیں سوچتا جو کسانوں سے کہیں زیادہ تعداد میں ہیں؟ کیوں؟ کیا صارفین ہمارے اتنے ہی اپنے نہیں؟ اور کیا حکومت کو اکثریت کی بھلائی کے لیے منتخب نہیں کیا جاتا؟
تیسرا، اگر وزیر کی دلیل کو صوبائی سطح تک وسعت دی جائے تو کیا ہوگا؟ پنجاب میں ہمارے اپنے کسانوں کے بجائے خیبر پختونخوا اور سندھ کے کسانوں کو کیوں فائدہ پہنچایا جائے؟ اِس طرح کے شخص پر فوراً ہی ملک مخالف ہونے کا لیبل لگا دیا جائے گا بھلے ہی دلیل کی بنیادی منطق میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
چوتھا، یہ ’بااثر مافیا‘ کون ہے جو ہندوستان سے درآمد چاہتی ہے؟ درآمد سے اِس کا کیا فائدہ ہے؟ اور اگر مطالبہ ایسی سرگرمی کی بحالی ہے جو پہلے بھی ہو رہی تھی، تو اِس مافیا کو اُس وقت ریاست مخالف سرگرمیوں پر شکنجے میں کیوں نہیں لایا گیا؟ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ یہ مقامی پیداواری مافیا ہو جو درآمدات کا راستہ روکنا چاہتی ہو؟ کیا پیداواری مافیا صارفین کی مافیا سے بے پناہ طاقتور و بااثر نہیں ہوگی؟
بظاہر عجیب لگنے والے اِن تمام سوالوں کا مقصد وزیر کے ناسمجھی پر مبنی بیان اور اِس کی حمایت میں دی گئی دلیل کے کھوکھلے پن کو آشکار کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تجارت مخالف اِس بے ہودہ مؤقف کے پیچھے اندھی قومی پرستی ہے جس کی وجہ سے ملک کے اکثریتی عام شہریوں کی جیبوں پر بھاری بوجھ پڑ رہا ہے، جو شدید مہنگی چیزیں خریدنے پر مجبور ہیں۔
جس وقت لاہور میں ٹماٹر 300 روپے فی کلو فروخت ہو رہے تھے، اُس وقت وہی ٹماٹر صرف 30 میل دور امرتسر میں 40 ہندوستانی روپوں (پاکستانی 65 روپوں) میں فروخت ہو رہے تھے۔ مگر ہندوستان سے شدید نفرت، جس میں ہمارے بااثر افراد بھی برابر کے شریک ہیں، صارفین کے کم قیمتوں سے فائدہ اٹھانے کی راہ میں حائل ہوگئی۔ پھر ایک اور معروف وزیر، یعنی وفاقی وزیرِ خوراک نے کہا کہ ’حکومت کسی بھی سبزی، بشمول ٹماٹر اور پیاز کی ہندوستان سے درآمد کی اجازت نہیں دے گی، بھلے ہی مقامی منڈیوں میں رسد کی کمی کی وجہ سے اِن کی قیمتیں ریکارڈ سطح تک بلند ہوگئی ہوں۔‘ انہوں نے واضح کیا کہ ’یہ قدم اِس لیے اٹھایا گیا ہے تاکہ مقامی کسانوں کی زیادہ پیداوار کرنے کے لیے حوصلہ افزائی ہوسکے اور ساتھ ہی ساتھ زرِمبادلہ کی بچت بھی ہوسکے۔‘
ہندوستان کی خلاف نفرت سے جنم لینے والی اِس طرح کی بچکانہ دلیلیں پیش کرنے میں ہمارے وزراء اکیلے نہیں ہیں۔ مجھے ایک اور میٹنگ یاد ہے جب آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ نے ہندوستان کے ساتھ تجارت کے خلاف تقریر کر ڈالی تھی کیوں کہ اِس سے ’ہماری اپنی‘ صنعتیں تباہ ہوجائیں گی۔ اُنہوں نے جو مثال دی وہ جوتوں کی تھی جو کہ سرحد پار کم قیمت میں تیار ہو رہے تھے، اور اُن کی پاکستان میں درآمد سے مقامی کاروبار ’ختم‘ ہوجاتے۔ بریک کے دوران ایک شخص نے مذاقاً چیف صاحب سے پوچھا کہ آپ کے جوتے کہاں کے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اُن کے جوتے اٹلی کے تھے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان سے تجارت کے خلاف ہمارے یہاں جو جنون پایا جاتا ہے، اُس میں بہت سے ایسے لوگ بھی شریک ہیں جو دنیا کے ہر دوسرے ملک سے چیزیں خرید کر استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے، اور جن کی آمدنیاں اتنی زیادہ ہیں کہ اُن کے لیے ٹماٹر پیاز کی اونچی قیمتیں کوئی معنیٰ نہیں رکھتیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے ڈرائیوروں سے پیٹرول کی ٹنکی فل کروانے کا کہتے ہیں تو یہ بھی نہیں پوچھتے کہ پیٹرول کی قیمت کتنی ہے۔ یہ لوگ ہندوستان کو "نقصان" پہنچانے میں خوش ہیں جس کی انہیں خود تو کوئی قیمت ادا نہیں کرنی، مگر قیمت وہ کروڑوں لوگ ادا کریں گے جو غربت کی لکیر سے نیچے رہتے ہیں اور ایک وقت میں ایک لیٹر سے زیادہ پیٹرول خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
سب سے بڑی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اِس طرح کی سطحی حرکتوں سے ہندوستان کو کوئی نقصان پہنچتا بھی نہیں ہے۔ ایک طرف تو دونوں ممالک کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے جبکہ ہمارے رہنما کھلی آنکھیں رکھنے والی دنیا کے سامنے ’ہندوستان ہر دہشتگردی کی ماں ہے‘ ثابت کرنے کی کوشش میں خود کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔
افسوسناک حالت یہ ہے کہ عوام اِس سب سے اِس قدر مایوس ہوچکے ہیں کہ کوئی بھی اِن غلطیوں کی نشاندہی کروانے کا تکلف نہیں کرتا یہاں تک کہ سوالات کا پہلے سے ہی تنگ راستہ سختی سے بند ہوجاتا ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 اکتوبر 2017 کو شائع ہوا۔