بازیاب امریکی خاتون نے پاکستان،امریکا کو جھوٹا قرار دیا
کینیڈا کے شہری جوشوا بوائل کی امریکی نژاد اہلیہ کیٹلن کولمین نے کہا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کی جانب سے انھیں اور ان کے اہل خانہ کو افغان سرحد پار کرتے ہوئے بازیاب کروانے کے دعوے جھوٹے ہیں۔
کینیڈا کے اخبار ’ٹورنٹو اسٹار‘ کو دیے گئے ایک تفصیلی انٹرویو میں انھوں ںے کہا کہ ہم اس دن (11 اکتوبر) کو پاکستان میں داخل نہیں ہو رہے تھے بلکہ ہم پاکستان میں اس جگہ پر ایک سال سے بھی زائد عرصے سے موجود تھے۔
اوٹاوا ہسپتال میں اخبار کے نمائندے مچل شیفرڈ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہر کوئی الزام لگارہا ہے اور دعوے کر رہا ہے، پاکستان کا کہنا کہ ہم اس دن سے قبل کبھی پاکستان نہیں تھے، امریکا کا کہنا کہ ہمیشہ سے پاکستان میں تھے اور یہ پاکستان کی ذمہ داری تھی، ‘ان دونوں دعووں میں کوئی سچائی نہیں’۔
مزید پڑھیں: پاک فوج نے افغانستان میں اغوا ہونے والے غیرملکی جوڑےکو بازیاب کرادیا
کیٹلن نے قید کے دوران اپنے نومولود بچی کی ہلاکت کے بارے بتایا کہ یہ حقانی نیٹ ورک کی جانب سے ان کے شوہر جوشوا کو تنظیم میں شمولیت کی دعوت کو ٹھکرانے کانتیجہ تھا، 'وہ بہت غصہ میں تھے کیونکہ انھوں نے جوشوا کو ان کے ساتھ شامل ہونے اور کام کرنے کو کہا گیا تھا اور انھوں نے کہا تھا نہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'انھوں نے کھانا کھلاکر بچی کو ماردیا، انھوں نے غذا میں اوسٹروجن کی بھاری مقدار ملا دی تھی'۔
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے طالبان نے اپنے بیان میں کینیڈین جوڑے کے دعوے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیٹلن کے بیمار ہونے کی وجہ سے ان کا بچہ مرگیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: طالبان نے بازیاب کینیڈین شہری کے الزامات مسترد کردیئے
کولمین کا کہنا تھا کہ انھوں نے اور ان کے شوہر دیگر دو بچوں کی پیدائش کو خفیہ رکھا۔
31 سالہ کیٹلان کولمین اب بھی حجاب کرتی ہیں لیکن اسلام قبول کرنے کے حوالے سے جواب دینے سے گریز کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جوڑے کو اغوا کے کے بعد فوری طور پر افغانستان سے پاکستا منتقل کیا گیا تھا اور ابتدائی چھ سے سات ماہ مشکل ترین وقت میں شامل تھے۔
کولمین نے کہا کہ 'انھوں نے سب سے پہلے ہمیں افغانستان سے باہر نکالا جو طویل ڈرائیو تھی، وہ ہمیں میران شاہ لے گئے جو پاکستان میں ایک شہر ہے جہاں ہمیں ایک سال سے زائد عرصہ رکھا گیا'۔
مزید پڑھیں: کینیڈین جوڑے کو 5 سال تک پاکستان میں قید رکھا گیا، سی آئی اے
انھوں نے بتایا کہ ان کے شوہر کو فارسی زبان سمجھ آنے کی وجہ سے انہیں اپنے قید کے مقام کا پتہ چل جاتا تھا۔
انھوں نے مزید کہا کہ 2014 اور 2015 میں کثرت سے ہماری جگہ تبدیل کی جاتی رہی اور ان ہی دنوں ان سے جبری طور پر حمل ضائع کروایا گیا اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کا عمل بھی ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ جس کے بعد انھیں موسٰ گھر منتقل کیا گیا جو افغانستان کی سرحد پر کابل سے جنوب مشرق میں ہے، جہاں مہینوں رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کینیڈین جوڑے کی پانچ سالہ قید کا ڈرامائی اختتام
بازیاب خاتون کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے حراست کے آخری لمحات دار الموسیٰ میں گزارے جہاں انھیں گزشتہ سال نومبر کے مہینے سے بازیاب کرائے جانے کے دو دن قبل تک قید رکھا گیا تھا۔
11 اکتوبر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’رہائی سے قبل اغوا کار اس دن ان کو گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ دونوں اطراف سے گولیوں کی بوچھاڑ جاری تھی، ہم نے مدد کے لیے بھی نہیں پکارا کیوں کہ ہم خوفزدہ تھے کہ کہیں حقانی نیٹ ورک کا کوئی دوسرا گروہ ہمیں اغوا تو نہیں کرنا چاہتا‘۔
انھوں نے بتایا کہ انھیں یہ یاد نہیں کہ جب انھیں یہ پتہ چلا کہ وہ پاکستانی سیکیورٹی اہلکار تھے تو ان کا ردعمل کیا تھا 'میراخیال ہے میں تقریباً سکتے کی حالت میں تھیں'۔
یہ خبر 25 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی