ایک کروڑ کا گٹکا یا خوشحال زندگی؟
ایک کروڑ کا گٹکا یا خوشحال زندگی؟ فیصلہ آپ کا!
آج میں نے 'غربت' کو اپنی تمام تر سفاکی سے دیکھا ہے۔ اُس کی چھاپ چہار سوں عیاں تھی، لوگوں کی گدلی حلقہ زدہ آنکھوں سے، پچکے ہوئے گالوں اور جسموں سے جو ہڈیوں پر چمڑے جیسا منڈھا ہوا تھا۔ 500 سے زائد آبادی والے اِس گاؤں میں اگر کوئی چیز پھل پھول رہی تھی تو وہ زہریلا گٹکا کھانے کی عادت تھی، جو مرد، عورتوں اور بچوں میں یکساں طور پر پھیل رہی تھی۔
وہ فروری کی ایک خوشگوار صبح تھی جب ہم اور کچھ دیگر صحافی دوست کشاں کشاں کسی تحقیق کی غرض سے گھارو کے اِردگرد واقع دیہاتوں میں سے ایک 'بچو کولہی' پہنچے، جہاں ایک سماجی تنظیم ہماری میزبان تھی۔
ہم نہیں جانتے تھے کہ اُس دن کی صبح جتنی خوبصورت تھی اُس کا بقیہ حصہ اتنا ہی دلفگار ہوگا۔ ہمیں اُس دن یہ بات ٹھیک سے سمجھ آگئی کہ ٹھنڈے ایئر کنڈیشنر ماحول میں ہونے والے بڑے بڑے سیمیناروں میں ملکی اور غیر ملکی ماہرین سے غربت کی باتیں کرنا اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کا تذکرہ کرنا، اُن کے غم میں گھلنا بالکل الگ بات ہے لیکن اپنی آنکھوں سے انسانیت کو شرمسار ہوتے دیکھنے کی اذیت کا پوچھیے ہی مت۔
گاؤں 'بچو کولہی' کی یہ آبادی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہی تھی اور اگر زندہ رہنے کا نام صرف سانس لینا ہے تو ہاں وہ سب زندہ تھے، بالکل اُن کیکڑوں کی طرح جسے انہوں نے میلے کچیلے تھیلے سے نکال کر ہمارے سامنے زمین پر چھوڑ دیا تھا۔ وہ ڈوری سے بندھے ہوئے کیکڑے بھی زندہ تھے اور اُن کا زندہ رہنا اِس لیے بھی ضروری تھا کہ خریدار کو کیکڑہ زندہ ہی درکار تھا۔ اِن کیکڑوں کی قیمت 300 سے 500 روپے تھی اور سارا دن سمندر کی لہروں کے مدوجزر سے اُلجھ کر چند کیکڑے اگر ہاتھ آجاتے تو وہ ماہی گیر خوش نصیب ٹھہرتا۔ یہ کیکڑے ڈوری سے بندھے تھے اور اِن کو اِسی طرح زندہ اور صاف رکھنا ضروری تھا تاکہ اچھے داموں بیچا جاسکے۔ اِن کی قیمت اِن کے حجم اور وزن کے حساب سے مقرر کی جاتی ہے۔