پاکستان اسٹیل مل کی اراضی کی بحالی کیلئے وفاق کی مدد طلب
پاکستان اسٹیل مل نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے سندھ حکومت اور نجی اداروں کو فراہم کی جانے والی اپنی 1800 ایکڑ کی قیمتی اراضی کی فوری بازیاب کے لیے وفاق کی مدد طلب کرلی۔
حال ہی میں تشکیل دیے گئے پاکستان اسٹیل ملز کے اسٹیک ہولڈرز (پی ایس ایم ایس جی) کے گروپ نے، جس میں ملازمین، پنشنر، ٹھیکیدار، ڈیلر اور سپلائرز شامل ہیں، کی جانب پاکستان کے سب سے بڑے صنعتی ادارے سے 65 ارب روپے کے مطالبے میں نرمی کے بعد خبردار کیا کہ اس قیمتی اراضی کو نیشنل بینک آف پاکستان اور سوئی سدرن گیس کمپنی کو قرضہ جات کی بحالی کے لیے کم قیمت پر نہ دیا جائے۔
پی ایس ایم ایس جی کے کنوینئر مومریز خان کا مؤقف تھا کہ اس پورے عمل سے ایک بہت زیادہ منافع اور پیداواری صلاحیت کے حامل ادارے کو گزشتہ 10 سالوں میں فائدے سے زیادہ نقصان پہنچانے والے ادارے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مسئلہ مشینوں یا ان کے پیچھے کام کرنے والوں کا کبھی نہیں تھا بلکہ ان حکمرانوں کا تھا جنہوں نے اپنے مفاد کے لیے اس صنعت کو تباہ کردیا۔
مزید پڑھیئے: چینی فرم کی پاکستان اسٹیل مل کی خریداری میں دلچسپی
پاکستان اسٹیل مل کو 28 مہینے پہلے بند کردیا گیا تھا اور یہاں ایک سال سے کوئی چیف آپریٹنگ آفیسر بھی نہیں تعینات کیا گیا، یہاں کے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی گئیں اور پینشنرز اپنے اخراجات کا بوجھ لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
خیال رہے کہ وفاق قرضہ جات کی ادائیگی کے مد میں اسٹیل مل کی کچھ اراضی نیشنل بینک اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ کو دینے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ ایک اور زمین کا ایک حصہ پاک چین اقصادی راہدای کو دیے جانے کا منصوبہ تھا جس کے خلاف اسٹیک ہولڈر اور سابق قائم مقام سی ای او کی جانب سے سوال اٹھائے جانے پر ان کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔
تازہ اطلاعات کے مطابق قائم مقام سی ای او نے پاکستان اسٹیل مل کے بارے میں وفاقی حکومت کو بتایا کہ اسٹیل مل کے پاس 19013 ایکڑ اراضی کی زمین موجود ہے جس میں سے زیادہ تر ملیر اور ٹھٹھہ ڈسٹرکٹ میں موجود ہے، اس میں سے 10278 ایکڑ اراضی پر مل کا مین پلانٹ موجود ہے جبکہ 8071 ایکڑ رہائش کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔
اس کے علاوہ بورڈ آف ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ کے مطابق 16988 ایکڑ اراضی پاکستان اسٹیل مل کے حق میں تبدیل کردی گئی ہے جبکہ 2024 ایکڑ کی زمین اب بھی ٹرانسفر نہیں کی گئی جس میں سے 1675 ایکڑ زمین پورٹ قاسم کی جانب سے 1974 میں دی جانے والی 3059 ایکڑ زمین کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وفاق کا اسٹیل مل کو لیز پر دینے کیلئے غور
رپورٹ کے مطابق سی ای او عارف شیخ کا کہنا تھا کہ 1377 ایکڑ زمین پاکستان اسٹیل مل کی رہائشی زمین کو جبری طور پر حکومت سندھ کی جانب سے 2006 میں بحال کرایا گیا تھا جس کا مقصد ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے زیر نظام تعلیمی اداروں کا قیام تھا، اس کی وجہ سے پاکستان اسٹیل مل اب تک اس جدو جہد میں مصروف ہے کہ اس اراضی کا مل کے حق میں پھر سے تبادلہ کیا جاسکے۔
پاکستان اسٹیل مل کے زیر انتظام 400 ایکڑ کی ایک اور رہائشی زمین کو صوبائی حکومت نے بحال کرکے 200 ایکڑ اراضی کو آئل ٹینکرز کی پارکنگ کے لیے مختص کردیا جبکہ بقیہ 200 ایکڑ غیر قانونی طور پر بلڈرز یا مخصوص افراد کو دے دی گئی جس کے لیے اسٹیل مل اب بھی اس کے برابر زمین کے گرانٹ کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ اسٹیل مل انتظامیہ اپنے رہائشی منصوبے کی 178 ایکڑ کی اراضی کی حد بندی کے لیے 2011 سے کوششیش کر رہی ہے جبکہ کچھ نا معلوم وجوہات کی بنا پر بقیہ 244 ایکڑ اراضی پر قبضہ کیا جا چکا ہے۔
پاکستان اسٹیل مل کی نیشنل بینک آف پاکستان اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ کو دی جانے والی 7600 ایکڑ کی زمین بغیر قرضہ جات کا موازنہ کیے دے دی گئی ہے۔
پی ایس ایم جی کے کنوینئر کا کہنا تھا کہ اسٹیل مل کی 157 ایکڑ اراضی 93 لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے دی گئی جس کی اصل قیمت 3 کروڑ فی ایکڑ تھی جبکہ 930 ایکڑ اراضی ایڈ ہاک انتظامیہ کی جانب سے 1 کروڑ 30 لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے دی گئی جب کہ اس زمین کی اصل قیمت 4 کروڑ فی ایکڑ بتائی جاتی ہے۔
پی ایس ایم ایس جی کے کنوینئر کا کہنا تھا کہ دن دہاڑے اسٹیل مل پر ڈاکہ ڈالا گیا، جس کا ہمیں بدلہ ملنا چاہیے۔
یہ خبر 23 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی