شکریہ فیس بک، تُو سدا رہے شاد باد رہے!
اب تک ہر گھر سے بھٹو نکلتا تھا اب ہر گھر سے مصلح اور دانش ور نکل رہا ہے اور اپنی اصلاح اور دانش فیس بُک پر اُگل رہا ہے۔
جِس طرح سوکھے ہوئے پھول فیس بُک میں ملیں
ہم فیس بُک کے عہد میں زندہ ہیں، بلکہ ہم میں سے بہت سے تو بس فیس بُک پر زندہ ہیں۔ اِس سماجی ویب سائٹ نے ہمارے طور طریقوں کو بدل کر رکھ دیا ہے، محبت ہی کے چلن کو لیجیے۔
کبھی محبت پہلے دیدار اور نظروں کے وار سے شروع ہوتی تھی، کئی روز تک پیچھا کرکے اپنی سنجیدگی کا یقین دلایا جاتا تھا، پھر ڈائجسٹوں کے شعری انتخاب سے شعر منتخب کرکے بڑی محنت سے خط لکھا جاتا، جس پر ناپید مصورانہ صلاحیت صَرف کرکے بھدّا سا دل بنایا اور اُس میں تیر پیوست کیا جاتا، اُس کے بعد ڈرتے ڈرتے اور اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے خط محبوبہ کو تھمایا جاتا، جس کے بعد کڑی دھوپ میں سڑتے ہوئے محبوب کے انتظار کا سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ اب یہ قسمت تھی کہ خط کا جواب آتا ہے یا محبوبہ کے بھائی کا عتاب۔