پاکستان

نیب ریفرنس: اسحٰق ڈار ساتویں مرتبہ احتساب عدالت میں پیش

نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے وفاقی وزیر خزانہ کے خلاف دو مختلف نجی بینکس سے تعلق رکھنے والے گواہان کو پیش کیا گیا۔
|

اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں احتساب عدالت میں دائر ریفرنس میں وزیر خزانہ ساتویں مرتبہ عدالت میں ٹرائل کے لیے پیش ہوئے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحٰق ڈار کے خلاف پاناما پیپرز کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کی۔

23 اکتوبر بروز پیر کو نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے وفاقی وزیر کے خلاف دو گواہان، مسعود غنی اور عبدالرحمٰن گوندل کو پیش کیا، جن سے اسحٰق ڈار کے وکیل خواجہ حارث نے بھی جرح کی۔

دونوں گواہان دو مختلف نجی بینکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور انہوں نے ملک میں اسحٰق ڈار کے موجود بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے احتساب عدالت کو معلومات فراہم کیں۔

استغاثہ کے پہلے گواه عبدالرحمٰن گوندل نے احتساب عدالت میں اپنا بیان قلمبند کرایا، نجی بینک سے تعلق رکھنے والے عبدالرحمٰن گوندل نے عدالت میں اسحاق ڈار کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: اسحٰق ڈار کے وکیل کی عدم پیشی پر کارروائی 23 اکتوبر تک ملتوی

ان کا کہنا تھا کہ وہ نجی بینک کے برانچ منیجر ہیں اور 16 اگست کو نیب نے دستاویزات کے ساتھ طلب کیا تھا جبکہ وہ 17 اگست کو نیب کے سامنے پیش ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ نیب کے تفتیشی افسر کو بینک ریکارڈ فراہم کیا جبکہ نیب نے جو ریکارڈ طلب کیا تھا وہ جمع کرا دیا ہے، اس موقع پر بینک اکاؤنٹ کھولنے کا فارم بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔

عبدالرحمٰن گوندل کا کہنا تھا کہ 25 مارچ 2005 کو کرنٹ اکاؤنٹ اسحٰق ڈار کے نام پر کھولا گیا اور 25 مارچ 2005 سے 16 اگست 2017 تک کی اسٹیٹمنٹس نیب کو فراہم کی گئیں، اس موقع پر بینک اکاؤنٹ کی ٹرانزیکشن کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کی گئیں۔

انہوں نے احتساب عدالت کو بتایا کہ تصدیق شدہ دستاویزات تفتیشی افسر کو فراہم کردی گئی ہیں تاہم عدالت نے انہیں آئندہ سماعت پر مزید دستاویزات کے ساتھ آنے کی ہدایت کی۔

جس کے بعد وکیل صفائی نے ان سے جرح کی۔

بعد ازاں دوسرے گواہ مسعود غنی نے احتساب عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا جو اسحٰق ڈار کے بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے تھا۔

احتساب عدالت نے بینکنگ کے شعبے سے وابستہ مزید دو گواہوں فیصل شہزاد اور محمد عظیم کو آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش ہونے کے لیے سمن جاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اسحٰق ڈار کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت 30 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کردی۔

اس سے قبل 18 اکتوبر وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار احتساب عدالت میں چھٹی مرتبہ پیش ہوئے تھے تاہم ان کے وکیل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالتی کارروائی ملتوی کردی گئی تھی۔

گزشتہ سماعت (16 اکتوبر) کے دوران عدالت نے اسحٰق ڈار کے وکلا کی جانب سے ان کے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

خیال رہے کہ 12 اکتوبر کو 8 گھنٹے طویل سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہان، البرکہ بینک کے نائب صدر طارق جاوید اور نیشنل انویسٹمنٹ ٹرسٹ (این آئی ٹی) کے سربراہ شاہد عزیز نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

یاد رہے کہ 4 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب کی جانب سے لاہور کے ایک نجی بینک (بینک الفلاح) کے سابق مینیجر اشتیاق علی کو بطور گواہ پیش کیا گیا جنہوں نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا تھا کہ اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے نام سے 2001 میں مذکورہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوالا گیا تھا، جس کی تفصیلات میں انہوں نے اپنی ایک سیکیورٹی کمپنی کے بارے میں بتایا جس کا نام ایچ ڈی ایس سیکیورٹیز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے۔

استغاثہ گواہ اشتیاق علی نے بتایا تھا کہ بینک میں کمپنی کے علاوہ اسحٰق ڈار کا ذاتی اکاؤنٹ بھی ہے جو انہوں نے 2005 میں کھولا تھا تاہم اسے 2006 میں بند کردیا گیا تھا۔

یہ بھی یاد رہے کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر 27 ستمبر کو نیب ریفرنسز کے سلسلے میں احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران فردِ جرم عائد کی گئی تھی، تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

آمدن سے زائد اثاثوں کے خلاف نیب ریفرنس

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسحٰق ڈار کے اثاثوں میں بہت کم عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا اور وہ 90 لاکھ روپے سے 83 کروڑ 10 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔

جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے 28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس میں اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔

بعد ازاں نیب نے اسحٰق ڈار کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا، جس کے دوران وزیرخزانہ کی آمدنی میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ سٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس، کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: اسحٰق ڈار پر فردِ جرم عائد

اس کے بعد ان کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔

اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی ہے، یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے، جس کی تصدیق ہونے کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

ریفرنس دائر ہونے کے بعد احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کو 19 ستمبر کو طلب کیا تھا تاہم عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے تھے۔

بعدازاں وفاقی وزیر خزانہ 25 ستمبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائے۔

دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اسحٰق ڈار سے وزارت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ملک کو مزید بدنام کرنے سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔