پاکستان

پاکستان میں تعلیمی اخراجات میں 153 فیصد اضافہ ہوا: رپورٹ

سندھ ہائی کورٹ نے کراچی کے تمام نجی اسکولوں کو پابند کیا تھا کہ وہ فیس میں سالانہ 5 فیصد سے زائد اضافہ نہیں کریں گے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک عام طالب علم کے تعلیمی اخراجات میں 153 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ایس بی پی کے افراط زر کے نگراں ادارے نے گزشتہ ماہ ستمبر میں سالانہ بنیادوں پر ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کی بنیاد پر مہنگائی میں رہائش کے کرایہ کے بعد تعلیم کا سب سے بڑا حصہ ہے۔

یاد رہے کہ رواں برس 18 اگست کو کراچی میں والدین نے اسکولوں کی فیس میں مسلسل اضافے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے ایک درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کراچی کے تمام نجی اسکولوں کو پابند کیا تھا کہ وہ فیس کی مد میں 5 فیصد سے زائد اضافہ نہیں کریں گے۔

مزید پڑھیں: نجی اسکول کس طرح بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کر رہے ہیں؟

واضح رہے کہ پاکستان میں کروڑوں بچے اسکول جانے کی اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ ان کے والدین ان کے تعلیمی اخراجات پورا نہیں کر سکتے جبکہ ملک کے سرکاری اسکول ان بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرنے کے اہل نہیں۔

پاکستان میں بچوں کی تعلیم اس لیے بھی زیادہ مہنگی ہے کیونکہ ایک مڈل کلاس خاندان کی آمدنی کا بڑا حصہ نجی تعلیمی ادارے کی نظر ہوجاتا ہے۔

وزارت تعلیم اور پروفیشنل ایجوکیشن ٹریننگ کے ذیلی ادارے نیشنل ایجوکیشن منیجمینٹ انفارمیشن سسٹم (این ای ایم آئی ایس) نے 2016 - 2015 میں پاکستان ایجوکیشن شماریات رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں کمی ہوئی۔

تاہم اسکولوں کا رخ نہ کرنے والے بچوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایک پوری نسل ناخواندہ ہے جبکہ حکومت بھی بچوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دے رہی۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری اسکولوں میں اب بھی سانس باقی ہے

نجی تعلیمی ادارے تو فیس کی مد میں والدین سے پیسے لے ہی رہے ہیں لیکن ان کی کمر بچوں کی مہنگی کتابوں، کاپیوں اور اسٹیشنری کا سامان توڑ دیتی ہے اور یہی اسکولوں میں تعلیم کو مہنگا کرنے کی ایک اور وجہ ہے۔

ایس بی پی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس سال ستمبر میں تعلیم کے حوالے سے مہنگائی 153 فیصد رہی جو ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو اسکول چھوڑنے پر مجبور کر سکتی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملک میں اسکول نہ جانے والے بچوں میں سے 44 فیصد کی عمریں 5 سے 16 برس کے درمیان ہیں۔

خیال رہے کہ ملک میں سرکاری تعلیمی اداروں کی اسکولوں کی حالت انتہائی خراب ہے اس لیے یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ جو بچہ نجی اسکول میں تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا وہ سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کر لے۔


یہ خبر 22 اکتوبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی