"یہ معاشرہ جس میں ہم تم سانس لے رہے ہیں، انتہائی بے حس معاشرہ ہے۔ یہاں شادی کے لیے کالی لڑکی پر گوری لڑکی کو فوقیت حاصل ہے اور لمبے، درمیانے قد والی لڑکیوں کا مقام چھوٹے قد والی لڑکیوں سے اونچا ہے۔ یہاں لوگ آنکھوں پر نظر کا چشمہ چڑھانے والی لڑکیوں کا مذاق اڑانے سے باز نہیں آتے، تو وہ لڑکیاں کیسے اِن لوگوں کے نشانے سے بچ سکتی ہیں جو میری طرح وہیل چیئر یا کسی دوسری معذوری کا شکار ہیں؟ مجھے لوگوں کے رویوں سے ڈر لگتا ہے، مجھے اِس معاشرے سے گھن آتی ہے۔"
یہ عبارت ہمجان ناول سے لی گئی ہے جس کے مصنف فارس مغل ہیں۔ ناول کے خوبصورت سرورق پر لکھی گئی تحریر "مجھے وہاں سے دیکھو جہاں سے تمہیں میرا جسم نہیں میری روح کھائی دے" قارئین کو فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے۔ ہمجان ناول میں پاکستانی معذور خواتین کے معاشی و معاشرتی مسائل کی نشاندہی انتہائی دلنشین انداز میں کی گئی ہے۔ اِس ناول کو ماوراء پبلشرز نے شائع کیا ہے۔
افسانہ نگار و محقق ڈاکٹر نگار عظیم ہمجان ناول کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ "ہر انسان کے اندر ایک مفلوج انسان بستا ہے اور ہر مفلوج کے اندر ایک انسان رہتا ہے۔ یہ رومانوی سماجی ناول رشتوں کی بقا، محبت اور انسان دوستی کی ایک ایسی مضبوط کڑی ہے، جو یقیناً توانائی دے گی۔ ہمجان پڑھ کر ایک پازیٹیو انرجی کا احساس ہوتا ہے۔"
ناول کی مرکزی خواتین کردار ویرا اور نرمین ہیں۔ ویرا قوت سماعت سے محروم لڑکی ہے جبکہ نرمین شدید معذوری Muscular Dystrophy کا شکار ہے۔ دونوں خواتین کے کردار ہمارے معاشرے کی معذور خواتین کی حقیقی عکاس ہیں۔ پاکستان میں معذور افراد کا شمار زیادہ تر بے بس اور قابل رحم افراد میں ہوتا ہے۔ اگر یہ معذور فرد مرد ہو تو پھر بھی کچھ نہ کچھ روزگار کا بندوبست ہو جاتا ہے، مگر خواتین کے معاملے میں معذوری کا مطلب زندگی کا سانس لیتا ہوا خاتمہ قرار پاتا ہے.