ڈرون حملے میں ’عمر خالد خراسانی‘ کی ہلاکت کی تصدیق
امریکی ڈرون حملے میں کالعدم جماعت الاحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی۔
دہشت گرد تنظیم کے ترجمان اسد منصور نے غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کو عمر خالد خراسانی کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’عمر خالد خراسانی افغان صوبے پکتیا میں حالیہ امریکی ڈرون حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ڈرون حملے میں عمر خالد خراسانی کے 9 قریبی ساتھی بھی ہلاک ہوئے۔‘
اسد منصور کا کہنا تھا کہ تنظیم کے نئے سربراہ کے انتخاب کے لیے جماعت الاحرار کی مشاورتی کونسل کا اعلیٰ سطح کا اجلاس جلد ہوگا۔
تاہم طالبان کے ایک اہم کمانڈر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جماعت الاحرار کے ایک سینئر کمانڈر اسد آفریدی کو پہلے ہی تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا جاچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک افغان سرحد پر ڈرون حملے: کیا امریکا کا ارادہ بدل رہا ہے؟
امریکا کی جانب سے گزشتہ تین ہفتے کے دوران افغانستان میں 70 زمینی اور ڈرون حملے کیے گئے، جبکہ پاک افغان سرحد پر گزشتہ چند روز کے دوران متعدد ڈرون حملوں میں طالبان سے منسلک حقانی نیٹ ورک کے اہم ترین کمانڈر سمیت 30 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
یہ حملے کینیڈین شہری جوشُوا بوائل، ان کی امریکی اہلیہ اور تین بچوں کی بازیابی کے چند روز بعد ہوئے۔
غیر ملکی خاندان کو حقانی نیٹ ورک کے ہاتھوں اغوا کے تقریباً پانچ سال بعد پاکستان میں بازیاب کرایا گیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمر خالد خراسانی کی ہلاکت پاکستان اور امریکا کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ دوبارہ شروع ہونے کی طرف اشارہ ہے۔
مزید پڑھیں: ٹی ٹی پی کی آرمی پبلک اسکول حملے کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت کی تصدیق
پاکستانی سیکیورٹی تجزیہ کار امتیاز گل نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’پاکستان مخالف عناصر کے خلاف ڈرون حملوں کا دوبارہ آغاز، ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی کے حوالے سے پاکستان کے سخت موقف کے بعد دونوں جانب سے اعتدال پسندانہ پوزیشن لیے جانے کی طرف اشارہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا، افغان سرزمین میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں سے متعلق پاکستان کی شکایات کے ازالے کے لیے تیار ہے، جبکہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آرہی ہے۔‘
صحافی سے دہشت گرد
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بانی ارکان میں سے ایک عمر خالد خراسانی عرف عبد الولی، مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سابق صحافی تھے۔
تنظیمی دائروں میں انہیں قابل اعتماد ملٹری کمانڈر کے طور پر جانا جاتا تھا۔
انہیں مختصر عرصے کے لیے تنظیم کے خیبر ایجنسی چیپٹر کا ایڈیشنل چارج بھی دیا گیا، جہاں انہوں نے لشکرز (ملشیاز) کے خلاف خونی مہم کا منصوبہ بنایا جنہیں حکومت کی حمایت حاصل تھی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی ڈرون حملے پاکستانی حدود میں نہیں ہوئے،خواجہ آصف کا دعویٰ
تاہم پھر انہوں نے ٹی ٹی پی سے علیحدگی اختیار کرکے اپنی الگ تنظیم ’جماعت الاحرار‘ بنالی۔
وہ پہلے طالبان کے ایک دھڑے ’احرار الہند‘ کے سربراہ تھے جس نے 2014 میں حکومت اور طالبان کے درمیان سیز فائر کے عرصے کے دوران متعدد دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔
ان حملوں میں اسلام آباد کورٹ کمپلیکس کا وہ حملہ بھی شامل تھا جس میں 12 افراد ہلاک ہوئے۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ عمر خالد خراسانی کا عالمی دہشت گرد تنظیم ’القاعدہ‘ اور اس کے سربراہ ایمن الظواہری سے بھی قریبی تعلق تھا۔