نقطہ نظر

ٹی وی چینلز یا بارگیننگ کے اڈے؟

نجانے کيوں ہم اس غلط فہمی ميں مبتلا ہيں کہ ہمارا ميڈيا معاشرے کی اصلاح کو اپنا عين فرض سمجھتا ہے.

اسلام آباد ميں کچھ عرصہ قبل منعقد ہونے والے جشنِ ادب ميں معروف تعلیم دان و ادیب عارفہ سيدہ زہرہ نے بڑی خوبصورتی سے ہماری تاريخ اور افسانہ کا حال بیان کيا۔

فرماتی ہيں کہ ہمارے ہاں جو تاريخ لکھی جاتی ہے اس ميں تاريخ اور کرداروں کے نام ٹھيک ہوتے ہيں اور واقعات مسخ شدہ، اور جو افسانہ لکھا جاتا ہے اس ميں تارېخ اور کرداروں کے نام فرضی ليکن واقعات عين حقيقت پر مبنی ہوتے ہيں۔

مطلب یہ کہ ہماری پوری تاريخ ايک افسانہ اور ہمارے افسانے ہماری تاريخ يا شايد حال اور مستقبل بھی ہيں۔ يہ بھی ايک ايسا ہی افسانہ ہے جس ميں کرداروں کے نام فرضی ليکن واقعہ سچ پر مبنی ہے۔

نجانے کيوں ہم اس غلط فہمی ميں مبتلا ہيں کہ ہمارا ميڈيا معاشرے کی اصلاح کو اپنا عين فرض سمجھتا ہے، معاشرے ميں ہونے والے جرائم سے پردہ اٹھاتا ہے اور ہمارے سياستدانوں کو عوام کے کٹہرے ميں لا کر کھڑا کرتا ہے۔

يہی غلط فہمی شازيہ نے بھی پال رکھی تھی۔ حالات کے جبر نے شازيہ کو کم سنی ميں ہی ايک نجی ٹی وی چينل ميں ملازمت پر مجبور کر ديا تھا۔ اس ملازمت کے ساتھ ساتھ اس نے حصولِ علم کا سلسلہ ٹوٹنے نہ ديا۔

پڑھیے: میڈیا کے چٹخارے

چند ماہ بعد ہی ٹی وی چينل سے اسے نکال ديا گيا اور وجہ يہ بتائی گئی کہ اس نے متعدد بار جھوٹ بولے۔ کبھی اس کی ماں کی بيماری اس کا جرم ٹھہرا اور کبھی اس کے امتحانات۔ اور سب سے خطرناک بات تو يہ کہ وہ رات گئے تک دفتر ميں کيوں بيٹھتی تھی؟ اس کی سرگرمياں پراسرار سمجھی گئيں۔

ادارے ميں ايسا ماحول قابلِ قبول نہيں۔ لڑکی ذات ہے، رات کو دير تک دفتر ميں رہنا کوئی معمولی بات نہيں۔ يہ حرکات قطعاً اخلاقيات کے زمرے ميں نہيں آتيں۔ اور جو چيز ہماری اخلاقيات پر ضرب لگا دے، اس کے خاتمے کے لیے ہم ہمہ تن سرگرم رہتے ہيں۔ کوئی شازيہ سے پوچھے آپ کس غلط فہمی کا شکار تھيں کہ آپ چھوٹے موٹے جھوٹ بوليں گی يا کسی مجبوری کے تحت رات گئے تک دفتر ميں رہيں گی تو ہم اخلاقيات کے ٹھيکيدار آپ سے سوال نہيں کريں گے؟ اور ان "غير اخلاقی" حرکات کا تماشہ ديکھتے رہيں گے؟

ہمارا وزيرِ اعظم جھوٹ بول سکتا ہے، ہمارے سياستدان جھوٹ بول سکتے ہيں، جج جھوٹ بول سکتے ہيں، فوج جھوٹ بول سکتی ہے، ہماری تاريخ جھوٹی، ہمارے وعدے جھوٹے اور ان سب سے زيادہ ہمارا ميڈيا جھوٹا ليکن آپ سے ہم يہی توقع رکھتے ہيں کہ آپ جھوٹ کی تلخ دھوپ ميں سچائی کی برف کے باٹ بيچو، صدق و امانت بيچو، جہاں کچرے کی خريد و فروخت ہوتی ہے وہاں جام ہائے سفال کا بازار لگاؤ۔ آپ اتنا عرصہ ميڈيا ميں کام کرتی رہیں تو کيا آپ نے يہ نہيں ديکھا کہ ٹی وی سکرين پر جو رنگ جھلکتے ہيں وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی آميزش نہيں بلکہ جھوٹے نگوں کی مينا کاری ہے۔

آپ نے ميڈيا کو آزاد اور روشن خيال شعبہ کيسے سمجھ ليا؟ ميڈيا معاشرے ميں صرف ايک دلال کا کام کرتا ہے جہاں اخلاقيات کے پيمانے صرف آپ جيسے معمولی اہل کاروں کے لیے وضع کيے جاتے ہيں۔ يہاں کام کرنے کے باوجود آپ يہ نہيں سمجھ سکيں کہ يہ کچرے کا وہ ڈھير ہے جو ہر طرف تعفن پھيلاتا ہے اور مخمل کی چادر اوڑھے اور پھول چڑھائے يہ ٹيگ لگا رکھا ہے "مجھے استعمال کيجیے۔"

مزید پڑھیے: ریٹنگ کے لیے سالا کچھ بھی کرے گا

آپ پروفيشن کی دنيا ميں کسی بڑی مسند پر براجمان نہيں تھيں بلکہ ايک معمولی اہلکار تھيں۔ اس ليے آپ سے بہتے ہوئے آنسوؤں جيسے "پاکدامنی"، نصف شب کی عبادت جيسا خلوص، حرم کی تقديس جيسی پارسائی اور ماں کی لوری کی طرح کا اخلاص متوقع تھا وگرنہ ميڈيا کے اس جہانِ زر و سيم ميں جابجا رندانِ قدح خوار آپ کو براجمان مليں گے ليکن اس کے لیے کوئی اينکر، کوئی پروڈيوسر يا کوئی بڑا نام ہونا ضروری ہے اور اس ميں جنس کی بھی تخصيص نہيں۔

آپ کا جرم دورغ گوئی يا چينل کی عمارت ميں شب بسری نہيں بلکہ آپ کا جرم 'پروفيشنلزم کے اسرار و رموز' سے نابلدی ہے۔ اگر آپ بڑا نام ہوتيں تو اپنے ہی دفتر ميں رات گزارنا آپ کی پروفيشن سے لگن تعبير کی جاتی اور آپ کی منہ اندھيرے دفتر آمد کہيں مليح آباد کے جوش کی سحر خيزی اور کہيں ڈپٹی نذير احمد کی وقت کی پابندی کی ياد دلاتی اور ماں کی بيماری شہاب صاحب کے لافانی افسانہ "ماں جی" کا انسانی پيرہن ہوتی۔

پروفيشن کی گونا گوں مصروفيات ساتھ تحصيلِ علم کے لیے مزيد امتحانات دينا نوآموز کاروں کے لیے باعثِ تقليد ٹھہرتا۔ چينل کے مالکان آپ کی تعليم سے لگن، پابندیِ وقت، ماں کی خدمت کو اوصافِ حميدہ کے طور پر بيان کرتے۔

اور اگر آپ کام کے دوران دفتری اوقات ميں بادہ نوشی بھی کرتيں تو اسے کام کا بوجھ، والدہ کی بيماری کا غم غلط کرنے اور غبارِ خاطر کے خروج کے لیے روزن تصور کيا جاتا۔ ليکن شومئی قسمت آپ کوئی مشہور چہرہ ہيں نہ کوئی نامور اشتہاری دلال۔ بلکہ چند ہزار روپوں کے لیے ايک چينل ميں ملازمت کرنے والی معمولی اہلکار۔

يوں بے آبرو ہو کر خلدِ ابلاغ سے اپنے نکالے جانے پہ نادم يا مغموم نہ ہونا بلکہ اِسے پروفيشنلزم کا عالمگير پيغام سمجھنا اور ذہن سے يہ چيز نکال دينا کہ چينلز معاشرے اصلاح کے لیے کھولے جاتے ہيں۔

يہ بات گرہ ميں باندھ لو کہ جيسے سيٹھ ايک فيکٹری يا مِل لگاتا ہے اسی طرح سے سيٹھ ايک چينل بھی کھولتا ہے۔

پڑھیے: میڈیا کا آئی ٹیسٹ

ايوانِ عدل، بازارِ سياست، ميڈيا چينلز اور بازارِ حسن کے کاروباری اصول ايک جيسے ہيں۔ يہ ايک ہی دھندے کے مختلف ناموں سے مختلف دکانيں ہيں اور برانڈز اپنے اپنے۔ ہر جگہ آپ کی کوئی قدر و قيمت نہيں بلکہ فيس ويليو پر جنس کی کم مائيگی يا بيش قيمتی کا تعين کيا جاتا ہے۔ ہاں ايک چيز اپنے حاشيہِ خيال ميں مرتسم لو کہ بازارِ حسن ميں جسم اور باقی دکانوں پر ضمير اور روحوں کے سودے ہوتے ہيں۔

آپ بس يہ گٌر سمجھ لیجیے کہ ميڈيا کا ہر چينل بارگيننگ کا اڈہ ہے۔ کيمرہ آن ہو تو معاشرے کی سکيننگ، کیمرہ آف ہو تو سيٹھوں کے ساتھ بارگيننگ۔

عمارہ شاہ

لکھاری تاريخ، ادب، ٽقافت اور سماجی مسائل پر مطالعہ کا شوق رکھتی ہیں جس کا اظہار ان کی تحريروں ميں بھی ہوتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔