نجی اسکول کس طرح بچوں پر تعلیم کے دروازے بند کر رہے ہیں؟
اِن دنوں پاکستان میں معاشرتی مہم جوئی (سوشل ایکٹیویزم) کی ایک لہر سی چل نکلی ہے۔ آیا اِس کی وجہ پاناما لیکس پر عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ہے یا پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست کا اثر، یہ ایک الگ بحث ہے۔
تاہم اِس کی ایک تازہ جھلک والدین کی اُس مہم کی صورت میں نظر آئی جس کے تحت سینکڑوں کی تعداد میں والدین نے گزشتہ دنوں کراچی کے ممتاز نجی اسکولوں کے مرکزی دفاتر کے باہر مظاہرہ کیا اور فیسوں میں ہوش ربا اضافے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔
محض گنتی کے چند والدین سے شروع ہونے والی یہ مہم آج ایک منظم اور پُرامن قانونی لڑائی میں تبدیل ہوچکی ہے۔ صرف کراچی میں ایک معروف نجی اسکول نیٹ ورک کے خلاف تقریباً 500 والدین یکجا ہوچکے ہیں۔ اِن والدین کا مؤقف واضح ہے۔ فیسوں میں من مانا اضافہ روکا جائے اور اِسے سندھ پرائیوٹ اسکول آرڈیننس میں مختص کردہ (زیادہ سے زیادہ) پانچ فیصد سالانہ اضافے تک محدود کیا جائے۔
والدین کی یہ جدوجہد طویل بھی ہے اور کٹھن بھی اور اِس کے کئی روشن اور تاریک پہلو ہیں۔ اُمید افزاء بات یہ ہے کہ اتنے برسوں میں پہلی دفعہ والدین منظم ہوئے اور انہیں ایسپا (آل اسکول پیرنٹس ایسوسی ایشن) بنانے کا خیال آیا۔ اپنے قانونی حقوق سے آگاہی اور عدالتی نظام پر عام آدمی کا یقین بھی اِس حوالے سے بہت خوش آئند ہے۔
تاہم اِس معاملے کا سب سے حساس اور فکر انگیز پہلو یہ ہے کہ والدین اِن اسکولوں کے سامنے سینہ سپر ہیں جہاں اِن کے بچے ہنوز زیر تعلیم ہیں۔ بعید نہیں کہ فریق اسکول اِس مہم جوئی کا بدلہ بچوں سے لیں۔ ماضی میں کراچی کا ایک ممتاز نجی اسکول ایسا کرچکا ہے جہاں اسکول کی بے جا فیسوں کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکانے والے گھرانوں کے بچے امتیازی سلوک کا نشانہ بنے۔ عدالت کے واضح حکم کے باوجود اُن بچوں کے سیکشن الگ کیے گئے، اُنہیں واش روم کے باہر بٹھا کر لنچ کروایا جاتا، مارننگ اسمبلی میں دیگر بچوں کے سامنے نادہندہ کے طور پر ذلیل کیا جاتا اور تعلیم، امتحان اور کھیل کے مساوی حقوق سے محروم کیا گیا۔
اسکول انتظامیہ کے امتیازی رویے سے تنگ آکر کئی بچے اسکول چھوڑ گئے جبکہ باقیوں کو اِس معاملے میں بھی عدالت عظمیٰ کا سہارا لینا پڑا۔ غرض یہ کہ اِس تمام تر قصے میں بچوں کا تعلیمی مستقبل داؤ پر لگا نظر آتا ہے۔ اتنے اندیشوں اور دیگر والدین کے تلخ تجربوں کے باوجود سینکڑوں کی تعداد میں والدین کا دیگر نجی اسکولوں کے خلاف کھڑا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں۔
والدین کی فعال تنظیم، فیصل ایسوسی ایشن کے سربراہ فیصل احمد گزشتہ 3 برسوں سے اِس مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اول اول اُن کا رابطہ پہلے نجی اسکول کے خلاف آواز اٹھانے والے والدین سے ہوا اور آج وہ ایک اور بڑے نجی اسکول نیٹ ورک کے ہاتھوں ستائے گئے والدین کی تنظیم کے صدر ہیں۔ فیصل کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہر مرحلے اور ہر سطح پر اِس مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کی لیکن کچھ حاصل نہیں ہوا۔
اول تو اسکول انتظامیہ والدین کو گھاس ہی نہیں ڈالتی اور اگر کہہ سن کر بیسیوں درخواستوں اور فون کالز کے بعد ملاقات ہو بھی جائے تو میں نہ مانوں کی ایک رٹ ہوتی ہے۔ ہیلے بہانوں سے معاملے کو طول دیا جاتا ہے اور زیادہ بحث مباحثے پر انفرادی چھوٹ دینے کی پیشکش ہوتی ہے۔ جب معاملہ یوں بھی نہ سلجھے تو دھمکیوں کی نوبت آجاتی ہے۔
فیصل کا کہنا تھا کہ قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ وہ انتہائی قدم تھا جو والدین نے اسکول کی ہٹ دھرمی اور ڈائریکٹر جنرل کے نوٹیفکیشن کی مستقل حکم عدولی کے بعد مجبوراً اٹھایا۔ اِس حوالے سے والدین کا مطالبہ حق بجانب ہے۔ اُنہیں اسکول کی فیسیں دینے سے انکار نہیں لیکن پچھلے 3 برسوں میں جس انداز سے متعلقہ اسکول کی فیسوں میں سالانہ 10 سے 15 فیصد بلاجواز اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، والدین اِسے قانون کی سراسر خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔
گویا فی بچہ، مئی سے اگست تک ہر سال، ماہانہ 5 سے 10 ہزار تک کا اضافہ معمول کی بات ہے۔ اِس پر تعلیم کا گرتا معیار اور آئے دن مختلف مقابلوں اور سرگرمیوں کے نام پر ہزاروں کا خرچہ الگ درد سر ہے۔
اسکول میگزین اور اسٹیشنری کے نام پر بھی گاہے بہ گاہے خوب رقم بٹوری جاتی ہے۔ اِس پر مستزاد حکومت کی جانب سے عائد کردہ نیا تعلیمی ٹیکس، جسے والدین کے کھاتے میں ہی ڈال دیا گیا ہے۔ بقول ایک والد، یوں معلوم ہوتا ہے کہ اسکول محض فیسیں بٹورنے، امتحان لینے اور غیر ضروری سرگرمیوں کے نام پر چندہ جمع کرنے کے کاروباری مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں جہاں علم اور دانش ندارد ہے بس مسابقت اور دکھاوے کا گورکھ دھندہ ہے۔
اِس حوالے سے اسکول انتظامیہ بات کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اِس موضوع پر اُن کے وکیل عدالت میں اپنا مؤقف بیان کریں گے۔ نیز فیسوں میں پانچ فیصد اضافے کا قانون بھی عدالت میں چیلنج کیا جاچکا ہے۔ کیس کی سماعت مکمل ہوچکی ہے اور فیصلے کا انتظار ہے جو اُنہیں یقین ہے کہ اسکولوں کے حق میں ہوگا کیوںکہ مہنگائی کے تناظر میں فیسوں میں اضافہ فطری عمل ہے اور اِس میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی گئی۔ اگر کچھ والدین فیسیں ادا نہیں کرسکتے تو اُنہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ہمارے معیاری (برانڈڈ) اسکولوں سے نکال کر اپنی استطاعت کے مطابق سستے اسکولوں میں داخل کروا دیں۔
مگر والدین کا کہنا ہے کہ وہ فیسیں دے سکتے ہیں جب ہی انہوں نے اپنے بچوں کو بہتر معیارِ تعلیم اور روشن مستقبل کی خاطر اِن اسکولوں میں داخل کروایا تھا۔ لیکن وہ دن دور نہیں کہ من مانے اضافے کے ساتھ شہر کے بیشتر نجی اسکول، اچھا کھانے کمانے والے والدین کی بھی پہنچ سے دور ہوجائیں۔ اِس حوالے سے مسز انجم نامی ایک والدہ نے سوال کیا کہ وہ کب تک ڈرڈر کر جیتے رہیں گے؟ اپنے قانونی حقوق سے آگاہی اور اِس حوالے سے حق کی خاطر آواز اٹھانے میں کیا مضائقہ ہے؟
ایک اور والد طلحہ کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ بچوں کو اسکول سے نکال دیا جائے گا؟ اول تو یہ اتنا آسان نہیں کیونکہ اِس معاملے میں اب عدلیہ اور ذرائع ابلاغ ہمارے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں اور اگر ایسا ہوا بھی تو اُن کے بچوں کی دنیا اور تعلیم ختم نہیں ہوجائے گی۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ پچھلے مقدمے میں سندھ ہائی کورٹ تقریباً 2 سال قبل والدین کے حق میں ایک معروف نجی اسکول کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے۔ تاہم اِس اسکول نے اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی ہوئی ہے۔ جس کا فیصلہ جلد متوقع ہے۔
حمود الرحمٰن جو خود بھی وکیل ہیں اور اِس کیس کے حوالے سے والدین کی نمائندگی کر رہے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ 2001 میں پاس کیا گیا سندھ پرائیوٹ اسکول آرڈیننس ایک نہایت جامع اور عمدہ قانون ہے جس کو اگر درست طریقے سے لاگو کیا جائے تو اِس کے تحت تمام فریقین بشمول اسکول اور والدین کے جائز حقوق کا تحفظ ممکن ہے۔
اِس قانون میں نجی اسکولوں کو فیسوں میں بے جا اضافے کی کھلی چھٹی نہیں دی گئی، بلکہ زیادہ سے زیادہ 5 فیصد اضافے کو بھی متعلقہ انسپکشن کمیٹی کی سفارش درکار ہے جس کا انحصار براہِ راست اسکول میں دی جانے والی سہولیات کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ نجی اسکولوں کا ایک بڑا اتحاد جس میں لگ بھگ ایک درجن کے قریب نامی گرامی نجی اسکول شامل ہیں، اُس کے خلاف مدعی بن کر سامنے آئے ہیں۔
مساوی اور معیاری تعلیم ریاست کا وعدہ بھی ہے اورآئینی ذمہ داری بھی، تاہم اِس کی پاسداری میں ریاست بُری طرح ناکام رہی ہے۔ ماضی میں نجی اسکولوں نے پاکستان میں وہ خلاء پُر کیا جو تعلیم کے شعبے کو قومیائے جانے کے بعد پیدا ہوگیا تھا۔ تاہم کب یہ خلاء پُر کرتے کرتے اُنہوں نے تعلیم کی تجارت شروع کردی اور اُسے طبقات میں بانٹ دیا، نہ محکمہ تعلیم نے اِس پر دھیان دیا اور نہ والدین نے۔ اب ہوش آیا ہے تو پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے۔
ایسے میں واحد اُمید ہے تو ملک کی عدلیہ اور دانشور طبقے سے کہ وہ اِس تعلیمی ناانصافی کے خلاف یک زبان ہوکر آواز بلند کریں قبل اِس کے کہ معیاری تعلیم کا حصول عام آدمی کے لیے محض خواب ہوجائے۔
ڈاکٹر ارم حفیظ کراچی کی معروف نجی یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ارم نے جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ ان کا ای میل ایڈریس hafeezerum144@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔