یہ طاقتوروں کا معاشرہ کب مظلوموں کی آہ سنے گا؟
یہاں سوال آتا ہے تعلیم اور شعور کا۔ اگر عوام کی بڑی اکثریت زیورِ تعلیم سے آراستہ و باشعور ہوگی تو پھر ووٹ کے ذریعے تبدیلی ممکن ہے۔
جب ریاست کے تینوں ستون مل کر کمزور کا استحصال نہ روک سکیں اور ظالم کے پنجہءِ استبداد کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کرسکیں تو نظام زیادہ دیر نہیں چلا کرتے۔
کیونکہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔ یہ اِس لیے ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو کمزور خودبخود وحدت بنا کر طاقتور کو زیر کر لیتے ہیں۔ پھر اِس عمل کی کوکھ سے خونی انقلاب جنم لیتا ہے جس میں طاقتوروں کے سر اچھلتے ہیں، خونِ غاصب ارزاں ہوکر گلیوں میں بہتا ہے اور کمزور طاقتوروں کے سروں سے فٹبال کھیلتے ہیں۔
کیا پاکستان ایسی صورتحال کا متحمل ہوسکتا ہے؟
ہرگز نہیں۔ پاکستان کے داخلی و خارجی حالات قطعاً اِس کی اجازت نہیں دیتے۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے، افغانستان میں امریکہ نواز حکومت مسلسل ہمارے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے جہاں داعش کی صورت میں ایک نیا فتنہ پورے خطے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ ایران سے ہمارے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، ملکی معیشت زوال پذیر ہے، سیاسی و عسکری اداروں کے تعلقات میں شدید تناؤ ہے، عالمی طاقتیں ہماری ایٹمی صلاحیت کے درپے ہیں۔ لیکن ہماری بد نصیبی دیکھئے کہ ہمارے ملک کے مقتدر حلقے تمام خطرات سے بے نیاز ہوکر طاقت طاقت کھیل رہے ہیں۔
آج پاکستان میں نظامِ عدل اور طاقتور طبقات کے درمیان ایک تاریخی اور فیصلہ کن جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اگر اِس جنگ میں نظام عدل جیت گیا تو ہماری اگلی نسلوں کو ایک صحتمند اور ترقی یافتہ پاکستان ملے گا جسے ترقی یافتہ بنانے میں وہ اپنی محنت اور صلاحیتیں کھپا سکیں گے۔ لیکن اگر طاقتور طبقات نظام عدل پر حاوی ہوگئے تو کمزور طبقات یونہی پستے رہیں گے اور حالات کچھ بھی رخ اختیار کرسکتے ہیں۔
قانون ساز اداروں سے گزارش ہے کہ وہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ملک و قوم کے مستقبل کی فکر کریں اور جامع قانون سازی پر توجہ دیں۔ آپ کے اقتدار کو دوام خود بخود مل جائے گا۔
عدلیہ سے گزارش ہے کہ وہ حق اور انصاف کا بول بالا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ رکھے کہ موجودہ حالات میں 21 کروڑ عوام کی پُراُمید نگاہیں آپ پر ہی لگی ہیں۔
انتظامی اداروں سے گزارش ہے کہ قانون کا نفاذ ہر پاکستانی کے لیے یکساں کریں کہ آپ بھی اُسی نبی کے امتی ہیں جنہوں نے سب کے لیے ایک جیسے قانون کی ہدایت کی تھی۔
عوام سے التماس ہے کہ وہ برادری، ذات پات اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوجائیں اور میرٹ پر اُن لوگوں کو ووٹ دیں جنہوں نے پاکستان کے ریاستی اداروں (مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ) کو مضبوط کیا یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جنہوں نے قانون کو عملاً سب کے لیے برابر کردیا یا کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔
یاد رکھیں اگر معاشرے سے ظلم مٹ گیا اور ظالم کو یقین آگیا کہ میں ظلم کرکے گرفت سے کسی صورت نہیں بچ سکتا تو ترقی ہمارے گھر کی باندی ہوگی۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نہ کرپشن ہے، نہ دہشتگردی، نہ معیشت، نہ کوئی اور، بلکہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ صرف اور صرف ایک اچھا نظام عدل ہے جو جامع قانون، آزاد عدلیہ اور غیر جانبدار انتظامیہ سے وجود میں آسکتا ہے۔
پاکستان کے مقتدر حلقے سوچ لیں کہ آیا وہ مل جل کر مشترکہ جدوجہد کے ذریعے ایسا جاندار نظامِ عدل پاکستان کو دینے کے لیے کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟
اگر ہاں تو پھر یہ قوم محفوظ ہاتھوں میں ہے ورنہ خاکم بدہن پاکستان واقعی شدید خطرے میں ہے۔
بلاگر سوشل میڈیا سے رغبت نہیں رکھتے جب کہ پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجنئیر ہیں۔ آپ اُن سے بذریعہ ای میل بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ nomanulhaq1@gmail.com
اگر آپ لکھاری سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں تو اس نمبر پر کیا جاسکتا ہے۔ 0309-4673593
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔