پاکستان

’ڈی جی آئی ایس پی آر کو معیشت پر بیان سے گریز کرنا چاہیے‘

غیرذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر کرسکتے ہیں،وزیر داخلہ احسن اقبال کا ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان پرردعمل
|

اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ اور ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے پاکستانی معیشت سے متعلق دیئے گئے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ’پاکستان کی معیشت مستحکم ہے، غیر ذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر کر سکتے ہیں اور ڈی جی آئی ایس پی آر کو معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کرنا چاہیے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’2013 کے مقابلے میں ملکی معیشت بہت بہتر ہے، ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے ترقیاتی بجٹ پر عمل ہو رہا ہے اور اب ہمیں آئی ایم ایف پروگرام پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں توانائی کے منصوبوں اور بجلی کی فراہمی سے صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری سے درآمدات پر دباؤ پڑا ہے مگر قابل برداشت ہے، ٹیکسوں کی وصولی میں دو گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے جبکہ سیکیورٹی آپریشنز کے لیے بھی وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں۔‘

’معاملہ قومی سلامتی میں اٹھائیں گے‘

بعد ازاں ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے ایک بار پھر کہا کہ ’پاکستان کی معیشت مستحکم ہے، پاکستانی معیشت پر دباؤ اس کی برآمدات کی وجہ سے ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے گزشتہ 3 سال میں 10 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے لیے سرمایہ کاری کی جس کے لیے مشینری درآمد کی گئی، لیکن معیشت پر یہ دباؤ کسی صورت ناقابل برداشت نہیں اور ہم اس سے باآسانی نکل سکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ڈی جی آئی ایس پی آر جیسا غیر ذمہ دارانہ بیان کوئی دشمن ملک دے تو دے ہمیں نہیں دینا چاہیے، جبکہ انہیں شاید ایسے بیانات کا بین الاقوامی سطح پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ نہیں ہے۔‘

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’ڈی جی آئی ایس پی آر کے پاس ایسا کوئی بیان دینے کا اختیار نہیں ہے اور نہ ہی اس کے اثرات ملک کے حق میں ہوسکتے ہیں، لہٰذا ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے بیان و تبصرہ کرنا چاہیے اور ایسا کوئی غیر ذمہ دارانہ بیان نہیں دینا چاہیے جس کی قیمت ملک کو ادا کرنی پڑے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت اور فوج کے درمیان کوئی لفظی جنگ نہیں ہے، ہم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس پر بات کریں گے اور مجھے امید ہے کہ اداروں کے ذمہ داران آئندہ اس حوالے سے احتیاط رکھیں گے۔‘

وزیر داخلہ کی جانب سے یہ بیان بظاہر میجر جنرل آصف غفور کے نجی ٹی وی کو اس انٹرویو کے ردعمل میں آیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کی معیشت اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ مل بیٹھ کر معیشت پر بات چیت کی جائے جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس حوالے سے تجاویز بھی دی ہیں۔‘

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق ملک کی سیکیورٹی اور معیشت کا گہرا تعلق ہے اور ملک کے حالات ٹھیک نہ ہونے پر معیشت متاثر ہوتی ہے جبکہ پاک فوج ملک کے سیکیورٹی معاملات کو دیکھ رہی ہے۔

دو روز قبل آرمی چیف نے بھی کراچی میں معیشت اور سلامتی پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان کو ترقی و خوشحالی کے لیے قومی سلامتی اور معاشی استحکام میں توازن کو قائم کرنا ہوگا اور اس کے ذریعے ہی ہم اپنی آئندہ نسلوں کے لیے پائیدار اور سلامتی کو یقینی بناسکیں گے۔‘

آرمی چیف نے ملک کے بڑھتے ہوئے قرضوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک میں ترقی ہورہی ہے لیکن قرضے بھی آسمان کو چھو رہے ہیں، ٹیکس اور جی ڈی پی کی شرح کم ہے، کشکول توڑنے کے لیے اسے بہتر بنانا ہوگا، انفراسٹرکچر اور توانائی کے شعبے بہتر ہوئے لیکن جاری خسارہ موافق نہیں۔‘