کینیڈین جوڑے کی پانچ سالہ قید کا ڈرامائی اختتام
افغانستان کے پہاڑوں میں ایک دہشت گرد نیٹ ورک کی قید میں جانے کے پانچ سال بعد ایک امریکی خاتون، ان کے کینیڈین شوہر، اور ان کے دورانِ قید پیدا ہونے والے تین بچے، امریکی اور پاکستانی حکومتوں کی جانب سے ایک ڈرامائی ریسکیو آپریشن کے بعد آزاد ہوگئے۔
31 سالہ کیٹلن کولمن، اور ان کے 33 سالہ شوہر جوشوا بوئلے کو 2012 میں دہشت گردوں نے قید کرلیا تھا، انہیں اکتوبر 2012 میں افغانستان میں دورانِ سیاحت نرغے میں لیا گیا تھا جبکہ اپنی قید کے وقت خاتون حاملہ تھیں۔
مبینہ طور پر وہ افغانستان میں حقانی نیٹ ورک کی قید میں تھے اور گذشتہ دنوں انہیں سرحد پار پاکستان 'منتقل' کیا جارہا تھا، جہاں ان کی رہائی ممکن ہوئی۔
ریسکیو آپریشن
پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق مغویوں کو کوہاٹ کے نزدیک 'امریکی حکام کی جانب سے انتہائی اہم انٹیلی جنس معلومات' کی بناء پر رہا کروایا گیا۔
امریکی حکام نے تفصیلات کی تصدیق تو نہیں کی، مگر انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے مطابق ’امریکی انٹیلی جنس حکام مغویوں کو ٹریک کر رہے تھے، اور 11 اکتوبر 2017 میں کرّم ایجنسی بارڈر سے ان کی پاکستان منتقلی کی اطلاعات پاکستان سے شیئر کی گئیں‘۔
پاکستان پر امریکا کے کئی سالہ طویل دباؤ کے بعد ہونے والے آپریشن کا آغاز ہوا اور جیسا کہ کچھ لوگوں نے بتایا، ایک خطرناک چھاپے، فائرنگ، اور اغواکاروں کی ’مغویوں کو قتل کر دو‘ کی دھمکی کے ساتھ ختم ہوا۔
جس کے بعد بوئلے کے خاندان کے مطابق انہیں صرف بندوق کا ایک چھرہ لگا ہے۔
مزید پڑھیں: بازیاب کرایا گیا کینیڈین جوڑا برطانیہ روانہ
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ مغویوں کو خیبر پختونخواہ کے ایک گنجان آباد علاقے سے بازیاب کروایا گیا جبکہ فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے پر گذشتہ دس دن سے ڈرون طیاروں کی پروازیں جاری تھیں۔
حکام کے مطابق ایک اغواکار کو گرفتار کیا گیا جبکہ اس کے دو ساتھی سیکیورٹی فورسز سے فائرنگ کے تبادلے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق غیر ملکیوں کے اغوا میں ایک ’دہشت گرد گروہ‘ ملوث تھا، مگر بیان میں کسی کا نام نہیں لیا گیا، دوسری جانب امریکی انٹیلی جنس حکام کا ماننا ہے کہ کینیڈین خاندان کے اغوا میں حقانی نیٹ ورک کا ہاتھ تھا۔
پاک فوج کے مطابق خاندان کو ’ان کے آبائی ملک منتقل کرنے کی کوششیں جاری ہیں‘، مگر جمعرات کی شام تک یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ وہ شمالی امریکا کب لوٹیں گے۔
القاعدہ سے روابط کا خوفناک اتفاق
ایک امریکی فوجی افسر کے مطابق ان کی ایک ٹیم بدھ کے روز پاکستان پہنچی تھی تاکہ خاندان کو واپس لایا جاسکے، ابتدائی طبی معائنے کے بعد ایک جہاز تیار کروایا گیا تھا، مگر صبح کے کچھ دیر بعد جب خاندان طیارے کی جانب بڑھ رہا تھا تو بوئلے نے کہا کہ وہ طیارے میں سوار نہیں ہونا چاہتے۔
بوئلے کے والد کا کہنا تھا کہ طیارہ افغانستان میں بگرام ایئربیس جانے والا تھا، اس لیے بوئلے نے انکار کردیا، جیسا کہ بگرام ایئربیس قیدیوں کے ساتھ مبینہ ظالمانہ سلوک کی وجہ سے بدنام ہے اور بوئلے وہاں جانے کے خلاف تھے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک فوج نے افغانستان میں اغوا ہونے والے غیرملکی جوڑےکو بازیاب کرادیا
ایک اور امریکی افسر کے مطابق بوئلے اپنے خاندانی تعلقات کی وجہ سے امریکا کی "تحویل" میں جانے سے گھبرا رہے تھے۔
بوئلے ایک زمانے میں زینب خدر کے شوہر رہ چکے تھے جو گوانتانامو کے سابق قیدی عمر خدر کی بڑی بہن اور القاعدہ کے سینیئر مالی مددکار کی بیٹی ہیں۔
ان کے والد مرحوم احمد سعید خدر اور ان کا خاندان کچھ عرصے کے لیے اسامہ بن لادن کے ساتھ رہا تھا جب عمر خدر ابھی لڑکپن میں تھے۔
کینیڈا میں پیدا ہونے والے عمر خدر 15 سال کے تھے جب امریکی فوجیوں نے فائرنگ کے تبادلے کے بعد انہیں گرفتار کر کے گوانتانامو بے میں امریکی قید خانے میں منتقل کر دیا تھا۔
امریکی حکام نے بوئلے کے پس منظر اور ان کے اغوا کے درمیان کسی بھی ربط کی نفی کی، 2014 میں ایک افسر نے کہا تھا کہ یہ سب ایک "خوفناک اتفاق" تھا۔
امریکی محکمہ انصاف کے مطابق بوئلے اور کولمن کسی بھی وفاقی جرم کی وجہ سے مطلوب نہیں ہیں، جوڑے نے امریکی حکام اور اپنے خاندانوں کو بتایا کہ وہ کمرشل فلائٹ کے ذریعے کینیڈا جانا چاہتے ہیں۔
کیٹلن اور جوشوا ہیں کون؟
کیٹلن کا ایک چھوٹے سے امریکی قصبے سے تعلق ہے اور انہیں نئی جگہیں گھومنے کا شوق ہے جبکہ جوشوا گوانتانامو کے ایک قیدی کی بہن کے سابق شوہر تھے۔
دونوں نے ہی جنگ سے تباہ شدہ ملک افغانستان کی سیاحت کے لیے کمر باندھی، اغوا ہوئے، اور دورانِ قید تین بچوں کو جنم دیا، پانچ سال بعد حیرت انگیز طور پر رہا ہوگئے۔
کولمن اور بوئلے کی قید کافی حد تک ایک راز رہی ہے قید کے پانچ سال بعد 2016 میں ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں مغوی کولمن اپیل کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ ’اس بھیانک خواب کا اب خاتمہ کر دیا جائے‘ اور پھر چند ماہ بعد خاندان بازیاب ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: طالبان کی حراست میں کینیڈین جوڑے کے ہاں بچوں کی پیدائش
مگر یہ جوڑا وسطی ایشیاء کیوں گیا تھا، اس حوالے سے کم ہی معلومات دستیاب ہیں، ان کے ایڈونچرز انہیں کرغیزستان، قازقستان، تاجکستان اور وہاں سے بالآخر افغانستان لے آئے۔
بوئلے کے والدین کو ان کے بیٹے اور بہو کی قید کے دوران زندگی کی جھلکیاں اکثر دکھائی جاتیں، یہ رابطہ بیچ کے فریقوں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔
کولمن کے والدین کی اپنے داماد سے آخری دفعہ بات 8 اکتوبر 2012 کو ایک ای میل کے ذریعے ہوئی تھی جو انہوں نے افغانستان کے ایک "غیر محفوظ" علاقے کے انٹرنیٹ کیفے سے بھیجی تھی۔