سرکاری اسکولوں میں اب بھی سانس باقی ہے
شاعرِ مشرق بہت پہلے فرما گئے کہ 'ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی’، یقیناً علامہ اقبال کے یہ الفاظ ارضِ پاک کے روشن مستقبل کے معماروں کے بارے میں ایک پیش گوئی سے کم نہیں۔
کراچی سمیت سندھ بھر کے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالتِ زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، محتاط اندازے کے مطابق سندھ میں 6 ہزار سے زائد اسکول ایسے جو بند پڑے ہیں یا پھر مختلف با اثر افراد نے اِن اسکولوں کو اصطبل یا گودام بنایا ہوا ہے، جبکہ ہزاروں اسکولوں میں بنیادی سہولیات ناپید ہیں۔ شدید گرمی میں اساتذہ اور طلباء پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات کے بغیر ہی درس و تدریس جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔
محکمہءِ تعلیم کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق 300 سے زائد اسکولوں کی بجلی واجبات کی عدم ادائیگی پر کاٹ دی گئی ہے جبکہ 1300 سے زائد اسکولوں کو گزشتہ مہینے کے الیکٹرک نے حتمی نوٹس جاری کیا تھا، جس پر تاحال محکمہءِ تعلیم کے حکام نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ عنقریب مزید 1300 اسکولوں کی بجلی بھی منقطع ہوجائے گی۔
پڑھیے: سندھ کی تعلیم کا نوحہ
عشروں سے جاری اِسی صورتحال نے سرکاری اداروں کا مورال اتنا گرا دیا ہے کہ یہاں پڑھنے والوں کو اب تمسخر کا نشانہ بنایا جانے لگا ہے۔ ہر سال میٹرک و انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں سرکاری اسکول کے نتائج انتہائی مایوس کن آتے ہیں۔ اِس زبوں حالی اور مایوسی کی فضاء میں کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن 9 نمبر میں واقع ابراہیم علی بھائی گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول کی طالبات نے شاعرِ مشرق کے مذکورہ شعر میں موجود پیش گوئی پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
رواں سال میٹرک کے نتائج میں اسکول کی طالبات نے 100 فیصد کامیابی حاصل کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اسکول کی ظاہری حالت یہ ہے کہ گراؤنڈ موجود ہے لیکن اُس میں سبزہ اور درخت نہیں ہیں، ہوا چلے تو دھول اڑتی ہے۔ کمپیوٹر لیب اور لائبریری کی سہولت نہیں۔ اسکول میں طالبات کی تعداد ایک ہزار جبکہ اساتذہ کی تعداد فقط 14 ہے، حالانکہ قواعد کے مطابق ایک ہزار بچیوں کے لیے 34 اساتذہ درکار ہوتے ہیں، لیکن اِس کمی کے باوجود رواں سال مجموعی طور پر 145 طالبات نے میٹرک کے امتحانات میں حصہ لیا، جن میں 19 طالبات نے ’اے ون‘، 82 طالبات نے ’اے‘ اور 34 طالبات نے ’بی گریڈ‘ حاصل کیا جبکہ بقیہ ’10 طالبات سی‘ گریڈ کے ساتھ پاس ہوئیں۔