آئی بی کا مبینہ خط:ارکان پارلیمنٹ کا حکومت سے وضاحت کا مطالبہ
اسلام آباد: ارکان پارلیمنٹ کے کالعدم تنظیموں سے روابط سے متعلق مبینہ خط کے معاملے پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وزیر قانون زاہد حامد اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل نے اہم ملاقات کی۔
وزیر اعظم سے ملاقات میں متاثرہ ارکان پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات کے دوران ڈی جی آئی بی نے وزیر اعظم کو مبینہ خط پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ سے متعلق منظر عام پر آنے والے خط کا آئی بی سے کوئی تعلق نہیں۔
متاثرہ اراکین پارلیمنٹ نے وزیر اعظم سے مبینہ خط پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی حساس ہے اور مخالفین اس خط کی بنیاد پر ہمارے خلاف سازشیں کرسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس خط کے بنیاد پر الیکشن کمیشن میں ہمارے خلاف درخواستیں دائر ہوں گی، ہمیں جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے، جبکہ کل کہا جائے گا ہم آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ نے شاہد خاقان عباسی سے الیکشن کمیشن، وزارت خارجہ اور داخلہ کو خط لکھنے اور ان سے تحریری طور پر وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا۔
ارکان نے مطالبہ کیا کہ حکومت الیکشن کمیشن، وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ پر واضح کرے کہ خط جعلی ہے۔
اراکین پارلیمنٹ نے کہا کہ ہم اس معاملے کو آگے نہیں لے جانا چاہتے، اس خط سے بس ہماری جان چھڑوائی جائے۔
ذرائع نے کہا کہ ملاقات کے دوران وزیر قانون زاہد حامد نے ارکان کو آئی بی کے خلاف تحریک استحقاق لانے کی بھی تجویز دی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ نے آئی بی کی جانب سے مبینہ طور پر جاری ہونے والی فہرست پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ 37 اراکین پارلیمنٹ مبینہ طور پر دہشت گردوں سے رابطے میں ہیں۔
اس کے بعد وفاقی وزیر اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے جبکہ (ن) لیگ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 15 ارکانِ اسمبلی نے بھی ان کے ساتھ واک آؤٹ کیا۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے ایوان میں کہا کہ آئی بی کے طرف سے سامنے آنے والی دستاویزات جعلی ہیں تاہم وفاقی وزیر قانون کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنادی گئی ہے۔