سکندر اعظم اور ان کے استاد ارسطو۔
تاریخ کے اوراق کھنگالیں تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں استاد کو والدین کے بعد سب سے زیادہ محترم حیثیت حاصل ہے، بادشاہ ہوں یا سلطنتوں کے شہنشاہ، خلیفے ہوں یا ولی اللہ سبھی اپنے استاد کے آگے ادب و احترام کے تمام تقاضے پورے کرتے نظر آئیں گے۔
خلیفہ ہارون رشید کے دو صاحبزادے امام نسائی کے پاس زیرِ تعلیم تھے۔ ایک بار استاد کے جانے کا وقت آیا تو دونوں شاگرد انہیں جوتے پیش کرنے کے لیے دوڑے، دونوں ہی استاد کے آگے جوتے پیش کرنا چاہتے تھے، یوں دونوں بھائیوں میں کافی دیر تک تکرار جاری رہی اور بالآخر دونوں نے ایک ایک جوتا استاد کے آگے پیش کیا۔ خلیفہ ہارون رشید کو اِس واقعے کی خبر پہنچی تو بصد احترام امام نسائی کو دربار میں بلایا۔
مامون رشید نے امام نسائی سے سوال پوچھا کہ، "استادِ محترم، آپ کے خیال میں فی الوقت سب سے زیادہ عزت و احترام کے لائق کون ہے؟" مامون رشید کے سوال پر امام نسائی قدرے چونکے۔ پھر محتاط انداز میں جواب دیا، "میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ احترام کے لائق خلیفہ وقت ہیں۔" خلیفۂ ہارون کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ اتری اور کہا کہ، "ہرگز نہیں استادِ محترم، سب سے زیادہ عزت کے لائق وہ استاد ہے جس کے جوتے اٹھانے کے لیے خلیفۂ وقت کے بیٹے آپس میں جھگڑیں۔"
وقت گزرا، زمانے نے چال بدلی اور نئے روایتوں نے جنم لیا، حکایتیں بدلیں، نہیں بدلا تو استاد اور شاگرد کا انوکھا اور خوبصورت رشتہ۔ نہ صدیوں کی مسافت نے اِس احترام کو گہنایا جو استاد کا خاصہ تھا، اور نہ ہی وقت کی دھول شاگرد کی اپنے استاد کے ساتھ بے پناہ اور بے لوث محبت پر ذرہ برابر اثر انداز ہوسکی۔
ویسے تو مولانا رومی اور اُن کے روحانی استاد، شمس تبریز کی پہلے ملاقات کے بارے میں کئی طرح کے ماورائی قصے اور کہانیاں مشہور ہیں، مگر اِن کی سچائی یا حقیقت میں سر کھپانے کے بجائے آئیے مولانا رومی ہی کے الفاظ میں جانتے ہیں کہ اُس ایک ملاقات نے کس طرح اُن کی زندگی میں انقلاب برپا کیا۔
"مجھے آج بھی چینی کے گوداموں کے قریب کی وہ جگہ اچھی طرح یاد ہے جہاں میری اپنے روحانی استاد شمس تبریز سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اب جب کبھی اکتوبر کے اُن دنوں میں شمس سے دائمی جدائی کا غم شدت اختیار کر جاتا ہے تو میں چلّے میں بیٹھ کر شمس کے سکھائے محبت کے اُنہی چالیس (40) اصولوں پر غور و غوض شروع کردیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا شمس اِس دنیا سے رخصت ہوا تو کہیں دنیا کے کسی اور کونے میں کسی دوسرے نام سے ایک نئے تبریز نے جنم لیا ہوگا، کیونکہ شخصیت تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن روح وہی رہتی ہے۔"
ہماری کائنات کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ یہاں ہر شے متحرک ہے، اور یہی تحرک انسانی زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھتا ہے، تاریخِ عالم گواہ ہے کہ جب کبھی، جہاں کہیں جمود آیا وہ قوم صفحۂ ہستی سے مٹتی چلی گئی۔ جمود اُسی وقت آتا ہے جب انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اخلاقی اقدار زوال پزیر ہوں۔ بیتے زمانے میں اِس زوال کا آغاز کب، کہاں، کس موڑ پر ہوا؟ آئیے تھوڑا غور کریں۔
کچھ صدیاں پیچھے جا کر مغلیہ دور میں قدم رکھتے ہیں۔ مغل حکمرانوں کی عیش کوشی اور بداعمالیوں کے قصوں سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن استاد کا احترام وہ بھی خود پر واجب سمجھتے تھے۔
مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کو ملا احمد جیون سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ شہنشاہ بننے کے بعد ایک روز استاد کی یاد ستائی تو انہوں نے ملاقات کا پیغام بھیجا۔ دونوں نے عید کی نماز ایک ساتھ ادا کی، وقتِ رخصت اورنگزیب نے محترم استاد کو ایک چوّنی (چار آنے) بصد احترام پیش کیے۔
وقت کا دھارا بہتا گیا، اورنگزیب مملکتی مسائل میں ایسا الجھے کہ ملا جیون سے ملاقات کا کوئی موقع ہی نہ ملا۔ لگ بھگ دس سال بعد اُن سے اچانک ملاقات ہوئی تو وہ یہ دیکھ ششدرہ رہ گیا کہ ملا جیون اب علاقے کے متمول زمیندار تھے۔ استاد نے شاگرد کی حیرت بھانپتے ہوئے بتایا، "بادشاہ سلامت میرے حالات میں یہ تبدیلی آپ کی دی ہوئی اس ایک چوّنی کی بدولت ممکن ہوئی۔"
اِس بات پر اورنگزیب مسکرائے اور کہا کہ، "استادِ محترم آپ جانتے ہیں میں نے شاہی خزانے سے آج تک ایک پائی نہیں لی مگر اُس روز آپ کو دینے کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، وہ چونی میں نے شاہی خزانے سے اُٹھائی تھی اور اُس رات میں نے ہی بھیس بدل کر آپ کے گھر کی مرمت کی تھی تاکہ خزانے کا پیسہ واپس لوٹا سکوں۔"
استاد و شاگرد کے درمیان خلوص و محبت، جذبۂ ایثار اور انتہائی ادب و احترام صرف مشرقی یا اسلامی معاشرے کا خاصہ نہیں رہا بلکہ تاریخ میں کئی ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں مغرب کے اخلاقی طور پر دیوالیہ معاشرے میں بھی استاد نے والدین سے بڑھ کر قربانیاں دے کر شاگرد کی زندگی سنوارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اِنہی میں اسے ایک لا زوال داستان "ہیلن کیلر" اور اُن کی جذبۂ ایثار سے سرشار استانی "مس این سلیوان" کی بھی ہے۔ یہ ٹیلی فون کے مؤجد الیگزینڈر گراہم بیل تھے جنہوں نے اُن کی ملاقات ہیلن نامی اِس انوکھی بچی سے کروائی جو شدید دباؤ کا شکار تھی اور دیکھنے، سننے اور بولنے کی تینوں بنیادی حسوں سے نا بلد تھی۔
این سلیوان نے ایک مشکل فیصلہ کرتے ہوئے ہیلن کو پڑھانے کی ٹھانی۔ وہ اُس کے ہاتھ پر پانی گرا کر بتاتی کے پانی کیسا ہوتا ہے، اُس کے احساسات جگاتی، یوں بتدریج کھٹن مراحل کے بعد ہیلن اپنے ارد گرد کی دنیا سے آشنا ہوئی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ایک نامور مصنفہ بنیں جس کا تمام تر سہرا این سلیوان کے سر ہے۔ زندگی کے آخری دنوں میں جب این سلیوان ہسپتال میں تھیں تو کامیابیوں کے عروج پر چڑھتی ہیلن ہر روز اُن سے ملنے آتیں مگر وہ کسی بھی طرح اُن قربانیوں کا خراج ادا کرنے سے قاصر تھیں جو اُس عظیم استانی نے اُن کی زندگی سنوارنے کے لیے دی تھیں۔
صادقہ خان
صادقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائٹر ، بلاگر اور دو سائنسی کتب کی مصنفہ ہیں۔ صادقہ آن لائن ڈیجیٹل سائنس میگزین سائنٹیا کی بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ ۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے saadeqakhan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔