کوک اسٹوڈیو 2017 کی خوبیوں اور خامیوں پر ایک نظر
پاکستان میں 60 کی دہائی میں جدید موسیقی کے ابتدائی سراغ ملتے ہیں، ایسی موسیقی، جس کو پاپ موسیقی کہا گیا۔ 1966 میں پاکستانی فلم ارمان کے لیے احمد رشدی کے گائے ہوئے گیت 'کوکو کورینا' نے پاپ، ڈسکو اور راک گیت کے طور پر شہرت حاصل کی۔
اِس گیت کی دھن موسیقار سہیل رعنا نے ترتیب دی تھی۔ یہ وہی موسیقار ہیں، جن کی پاکستانی فلمی صنعت کے لیے بے شمار خدمات ہیں، اس کے علاوہ پاکستان ٹیلی وژن کے ایک پروگرام سے بچوں میں موسیقی کی صلاحیتوں کو نکھارا گیا۔ اِن میں سے کئی بچوں نے بڑے ہوکر موسیقی کی دنیا میں بہت نام کمایا، جن میں محمد علی شہکی، عالمگیر، عدنان سمیع، نازیہ حسن، زوہیب حسن، مہناز، حدیقہ کیانی سمیت دیگر شامل ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب موسیقی کو ذمہ داری سمجھ کر پیش کیا جاتا تھا۔
70 اور 80 کی دہائی تک آتے آتے ٹیکنالوجی نے موسیقی کے سازوں کو بھی ترقی دی۔ مغرب میں جدید موسیقی نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑنے شروع کیے اور نت نئے انداز سے موسیقی کو پیش کیا جانے لگا۔
اِس کے اثرات دنیا کے دیگر ممالک میں بھی مرتب ہونے لگے، جن میں پاکستان سرِفہرست تھا۔ یہاں سب سے پہلے پاپ میوزک کو مقبولیت ملی، سولو اور بینڈز کی شکل میں نوجوان نسل نے جدید موسیقی کے منظر نامے پر خوب ہنگامہ برپا کیا، مگر اِس ہنگامے میں ایک آہنگ تھا، سُر اور تال آپے سے باہر نہیں ہوئی تھی۔ کئی نوجوان گلوکاروں نے ڈسکو، ریمکس اور پھر فیوژن میوزک جیسے شعبوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا، اِن میں چند ایک نام لیے جائیں تو حسن جہانگیر، نازیہ زوہیب اور سلیم جاوید کے نام نمایاں ہیں۔
سلیم جاوید نے تو مہدی حسن اور نور جہاں کے گیتوں کی صورت ہی بدل دی، مگر وہ پھر بھی کانوں کو بھلے لگتے تھے۔ پٹیالہ گھرانے کے استاد فتح علی خان (مرحوم) نے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'بطور پاکستانی گلوکار اور موسیقار، پہلا فیوژن میں نے جرمنی میں، وہاں کے ایک گلوکار کے ساتھ کیا تھا۔ اُس تجربے کو، وہاں 'راگا ساگا' کا نام دیا گیا تھا۔‘ استاد نصرت فتح علی خان اور فیوژن موسیقی کا تعلق تو سب پر عیاں ہی ہے۔
یہ تمہید باندھنے کے بعد اب بات آتی ہے موجودہ دور میں فیوژن موسیقی پر، جس کے لیے پاکستان میں کوک اسٹوڈیو گزشتہ 10 برس سے کوشاں ہے۔
پڑھیے: کوک اسٹوڈیو 10: ’لال میری پت‘ کا نیا خوبصورت انداز
2008 میں پاکستان میں کوک اسٹوڈیو کی شروعات کس طرح ہوئی؟ اِس کا بین الاقوامی سفر کہاں سے شروع ہوا؟ عرب اور افریقی ممالک سے ہوتا ہوا کس طرح انڈیا اور پاکستان تک پہنچا؟ اس کی تفصیل گزشتہ برس لکھ چکا ہوں۔ سیزن 9 تک کی خوبیوں اور خامیوں کا تذکرہ بھی تفصیل سے گزشتہ برس کی تحریر میں بیان ہوچکا ہے۔ یہ تحریر لکھنے کا مقصد تو کوک اسٹوڈیو کے رواں سیزن اور گزشتہ تین برس کا جائزہ لینا تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ اب موجودہ منظرنامے پر موسیقی کے شعبے میں کوک اسٹوڈیو کی خدمات اور مقبولیت کا تناسب کیا ہے۔
کوک اسٹوڈیو کے دو مرکزی ادوار
کوک اسٹوڈیو کی موسیقی اور گزرتے وقت میں آنے والے فرق کو سمجھنے کے لیے ہم اِس کو دو مرکزی ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا دور روحیل حیات کا ہے، جن کی سربراہی میں کوک اسٹوڈیو شروع ہوا اور 6 برس تک سینکڑوں گیت تخلیق ہوئے۔ روحیل حیات کے دور میں تخلیق ہونے والے گیتوں کی مقبولیت کا معیار آج بھی برقرار ہے۔ کوک اسٹوڈیو کا بہترین اسکور، اُسی دور کے تخلیق کیے ہوئے گیت سمجھے جاتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ کوک اسٹوڈیو کی آفیشل ویب سائٹ پر اب صرف آخری چار سیزن یعنی اسٹرنگز کے دور کے گیت ہی آرکائیو میں دستیاب ہیں، البتہ یوٹیوب پر تمام سیزن دستیاب ہیں۔ ایک انٹرویو میں، میں نے روحیل حیات سے پوچھا تھا کہ آپ نے کس طرح لوک موسیقی کو جدید میوزک کے ساتھ ہم آہنگ کیا، وہ بھی اتنی اچھی طرح کہ کئی گیت اوریجنل سے زیادہ فیوژن کے بعد سماعتوں کو بھلے محسوس ہوئے؟
اِس پر اُن کا کہنا تھا، "میں جب وائٹل سائنز کے دور میں میوزک پر کام کیا کرتا تھا، تو اُس وقت اتفاقیہ طور پر مجھے لوک موسیقی کا ایک بڑا کلیکشن مل گیا، جس کی وجہ سے میں پہلی بار اِس موسیقی سے متعارف ہوا، میں نے اِس موسیقی کو پہلی بار غور سے سنا، اِس کی باریکیاں سمجھیں، اور وہی فہم اور ادراک یہاں میری مدد کو آیا۔"
کوک اسٹوڈیو کا دوسرا دور، ساتویں سیزن سے شروع ہوکر موجودہ سیزن 10 پر مشتمل ہے۔ اِس میں اسٹرنگز بینڈ کے فعال گلوکار و موسیقار بلال مقصود اور فیصل کپاڈیہ ہیں۔ اسٹرنگز بینڈ پاپ میوزک کی حد تک ایک بہترین پرفارمنس دینے والا بینڈ رہا ہے، جس کے تمام البمز نے مقبولیت حاصل کی۔ مگر کوک اسٹوڈیو کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد اِن کی کامیابیوں کا تناسب گرا ہے جس کی وجوہات گزشتہ برس کی تحریر میں تفصیل سے بیان ہوچکی ہیں۔
ذرا غور سے دیکھا اور سمجھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ بلال اور فیصل کا لوک موسیقی کا مشاہدہ بہت زیادہ نہیں اور نہ ہی اِن کی موسیقی کا وہ مزاج ہے، جو وائٹل سائنز یا پھر روحیل کے سولو کریئر میں ملتا ہے۔
پڑھیے: کوک اسٹوڈیو 10 کی آخری قسط میں اسٹرنگز کا کم بیک
مثال کے طور پر روحیل حیات نے کوک اسٹوڈیو سے وابستہ ہونے سے صرف ایک برس پہلے راحت فتح علی خان کا پہلا البم بطور موسیقار کمپوز کیا۔ 2007 میں وہ البم ریلیز ہوا، جس کا نام 'چرخہ' تھا۔ اِس البم میں روحیل حیات کا علاقائی اور جدید موسیقی کا امتزاج واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ پہلو اسٹرنگز کے ہاں مفقود ہے۔ پھر اسٹوڈیو پروڈیوسر ہونے کی مہارت بھی ایک اضافی مگر اہم صلاحیت تھی، جو اسٹرنگز کے پاس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روحیل حیات کے جانے کے بعد متبادل کے طور پر جن موسیقاروں کے نام لیے جا رہے تھے اُن میں عدنان سمیع اور میکال حسن جیسے موسیقار شامل تھے۔ دونوں کے نام زیر غور آنے کی وجہ اسٹوڈیو پروڈیوسر ہونا بھی تھا۔
اسٹرنگز کی آمد کے بعد کوک اسٹوڈیو کی خوبیاں
اسٹرنگز نے چار برسوں میں ایک عمدہ رجحان متعارف کروایا کہ سیزن شروع ہونے سے پہلے کوئی ایک قومی گیت اِس سیزن کے تمام گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ کرکے نشر کیا جاتا ہے۔ اِس طریقے کو بہت پسند کیا گیا۔ ساتھ ساتھ تمام گیتوں کی شاعری، ویڈیو میں اردو، رومن اور انگریزی میں درج کردی گئی ہے، یہ بھی ایک احسن اقدام ہے۔ اِس کے علاوہ ہر سیزن کے مختلف چینلز پر آن ایئر ہونے کے لیے شیڈول کو ماضی کی طرح ایک ہی دن کے بجائے مختلف دنوں پر تقسیم کر دیا گیا ہے۔
اِس کے ساتھ ساتھ دسویں سیزن کے موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ ہر چند کہ اُس میں ان سے تفصیلی بات کرنے کا موقع تو نہ مل سکا، مگر یہ اچھی روایت قائم ہوئی ہے۔ اِس طرح ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھا جاسکے گا۔ معروف گلوکاروں، موسیقاروں اور گیت نگاروں کو تواتر سے خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ بھی بہت متاثر کن ہے۔
سیزن 10 کا پیش منظر
موجودہ سیزن 10 میں، کل 7 اقساط میں 29 گیت پیش کیے گئے، جس میں قومی ترانہ بھی شامل ہے۔ قومی ترانے کے حوالے سے بالخصوص سوشل میڈیا پر خاصی تنقید ہوئی، کیونکہ عوام کے مطابق، جس جوش و جذبے کے ساتھ قومی ترانہ پڑھا یا گایا جاتا ہے، وہ جوش کوک اسٹوڈیو کے ترانے میں نہیں تھا۔
اِس سیزن میں 8 میوزک ڈائریکٹر تھے، جن میں شجاع حیدر، شانی ارشد، جعفر زیدی، علی حمزہ نوری، سجاد علی، میکال حسن، ساحر علی بگا اور سلمان احمد شامل ہیں، جبکہ اِن میں سے اکثر نے اپنے فن کا بھی مظاہرہ کیا، یوں کل ملا کر تقریباً 40 گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ 7 ہفتے یہ سیزن پاکستان کے مختلف چینلز پر آن ایئر ہوتا رہا اور اِس پر منفی و مثبت رائے بھی سامنے آتی رہی۔
مزید پڑھیے: کوک اسٹوڈیو: ’آفرین آفرین‘ مقبول تو ہوا، مگر کیوں؟
اِس سیزن کی پہلی قسط میں جو گیت اور صوفیانہ کلام پیش کیا گیا، اُن میں احمد جہانزیب اور شفقت امانت علی خان کی آواز میں 'اللہ اکبر' اور علی سیٹھی کی آواز میں 'رنجش ہی سہی' کو بہت پسند کیا گیا۔ البتہ علی سیٹھی نے مہدی حسن کی غزل کو گانے کی اپنے طور پر سعی تو کی، مگر تکنیکی لحاظ سے وہ اُس میں کامیاب نہ ہوسکے، کیوں کہ انہوں نے غزل کے مقررہ راگ کو گاتے ہوئے تبدیل کردیا۔ دیگر دو گیتوں 'چھا رہی ہے گھٹا' اور 'منتظر' کو خاص پذیرائی نہ مل سکی۔
دوسری قسط میں چار گیت، ’تنک دھن‘، ’سیونی‘، ’فاصلے‘ اور ’جان بہاراں‘ نشر کیے گئے، جن میں کوئی بھی گیت زیادہ مقبولیت حاصل نہ کرسکا، مگر سلمان احمد اور راحت فتح علی خان کو سیونی گانے پر خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ بظاہر اِس کی ایک وجہ مغربی انداز کا گانا، جس کو راحت فتح علی خان جیسے کلاسیکی گائیکی کا اسکیل رکھنے والے گلوکار سے گوانا تکنیکی غلطی تھی۔
تیسری قسط میں چار گیت، ’لال میری پت‘، ’رونے نہ دیا‘، ’بازی‘ اور ’مجھ سے پہلی سی محبت‘ تھے۔ سجاد علی اور اُن کی صاحبزادی زویا علی کی آواز میں بیگم اختر کا گایا ہوا گیت بہت پسند کیا گیا۔ مگر بدقسمتی سے دیگر گیتوں کو اُس طرح سے نبھایا نہ جاسکا جس کے وہ حق دار تھے، وجہ وہی گلوکاروں کا درست انتخاب نہ ہونا تھا۔
اگلی چار اقساط میں سب سے بہترین گیت، عطااللہ عیسیٰ خیلوی اور اُن کے صاحبزادے سانول کا 'سب مایا ہے'، حمیرا ارشد کی آواز میں 'کاٹے نہ کٹے'، جاوید بشیر اور اکبر علی کی آواز میں 'نینا مورے' شامل ہیں، جبکہ گیتوں کی اکثریت، جن کو فیوژن کرکے مسخ کیا گیا، اُن گیتوں میں جنید جمشید کا گیت 'اُس راہ پر'، سلمان احمد کا 'گھوم تانا' استاد نصرت فتح علی خان کا 'دم مست قلندر'، ٹینا ثانی کا گایا ہوا گیت 'بول کے لب ہیں آزاد تیرے'، سلیم رضا کا گایا ہوا گیت 'جان بہاراں' اور مہدی حسن کا گیت 'رنجش ہی سہی' شامل ہیں۔
کوک اسٹوڈیو: پاکستانی موسیقی کا بین الاقوامی نمائندہ
پاکستان میں کوک اسٹوڈیو کی حیثیت، فیوژن میوزک میں، ایک سفیر کی ہے، جس نے پوری دنیا میں پاکستانی مقامی موسیقی اور گلوکاروں کو متعارف کروایا۔ جب سے کوک اسٹوڈیو شروع ہوا ہے، فنکاروں کی مقبولیت اور مارکیٹ میں اُن کی فنی صلاحیت کا پیمانہ کوک اسٹوڈیو میں شرکت پر منحصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے اچھے گلوکار، جن کا یہ جدی پشتی کام ہے، وہ گھر بیٹھ گئے، کیونکہ مارکیٹ میں تو اب صرف اُن کی ہی طلب ہے، جو کوک اسٹوڈیو کے منچ پر دکھائی دے رہے ہیں۔
اسٹرنگز بینڈ کے آنے سے بہت سارے ایسے فنکار، جن پر غیر اعلانیہ پابندی تھی، اُن کو شرکت کا موقع دیا گیا، جن میں عامر ذکی (مرحوم) اور میکال حسن جیسے نام سرِفہرست ہیں، مگر بہت سارے غیر پیشہ ورناموں کے کوک اسٹوڈیو میں شامل ہونے سے اِس کے معیار پر سوالیہ نشان بھی لگ گیا ہے۔ اِسی ناانصافی کی وجہ سے یہ سوال شدت اختیار کرتا جارہا ہے کہ آخر اُن فنکاروں کا نمبر کب آئے گا جو صلاحیت اور میرٹ کے باوجود بھی اب تک موقع حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
پاکستان کے پہلے سارنگی نواز استاد بندو خان کے پوتے مظہر امراؤ بندو خان، جن کے گھر میں دادا اور والد کے پرائڈ آف پرفارمنس دیوار پر سجے ہوئے ہیں، اُن کی سارنگی کوک اسٹوڈیو میں کبھی بولے گی یا مومنہ مستحسن جیسی غیر پیشہ ور شخصیات کو ہی آگے آگے رکھا جائے گا؟ دلی گھرانے کے استاد امداد حسین سے کون واقف نہیں، اُن کی تین نسلیں ستار بجا رہی ہیں، اُن کا نواسہ تراب علی ہاشمی ایک نوجوان ستار نواز ہے، دنیا بھر میں ہمارے ملک کی نمائندگی کرتا ہے، کوک اسٹوڈیو نے اُس کو صرف آڈیشن دینے تک رسائی دی ہے، آن ائیر موقع کب دیں گے؟ عامر ذکی کے آخری دنوں کے ساتھی اور نوجوان نسل کے باصلاحیت گلوکار آصف سنین سمیت ایک طویل فہرست ہے، لیکن ناجانے اِن فنکاروں کی کوئی شنوائی ہوگی؟ اور اگر کسی کو یاد ہو تو سہیل رعنا بھی ابھی زندہ ہیں۔
اب یہ کوک اسٹوڈیو والوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی مقبولیت موسیقی کے حوالے سے برقرار رکھنا چاہتے ہیں یا صرف اچھی شکلوں سے کام چلانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ملاوٹ شدہ چیز زیادہ دیر تک ہضم نہیں ہوسکتی، پھر چاہے اُس کے پیچھے کارپوریٹ سیکٹر کی کتنی ہی توانائی دستیاب ہو۔ اچھی سماعتیں دھیرے دھیرے ساتھ چھوڑنے لگتی ہیں۔
کوک اسٹوڈیو کے ایک نمائندے کا کہنا تھا کہ "ریٹنگ ہماری مجبوری ہے اور جن گیتوں کو آپ اچھا نہیں سمجھتے، اُن کی وجہ سے ہمیں بہت زیادہ ریٹنگ ملی ہے"۔ تو میں نے اُن کو مشورہ دیا کہ پھر چھوڑیں موسیقی کی خدمت وغیرہ، اور آئندہ سیزن 11 میں اداکارہ میرا سے انگریزی گانا گنوائیں، بہت ریٹنگ ملے گی. فیصلہ اب اُن کے ہاتھ میں ہے۔