ہمیں جمہوریت عزیز ترین ہے، مگر ایسی نہیں!
گزشتہ روز جب بیدار ہوا تو حسبِ عادت ٹی وی کے ذریعے حالات حاضرہ سے آگاہ ہونا چاہا۔ ٹی وی آن ہی کیا تھا کہ سامنے بے بس اور غصے میں لال پیلے ہوتے وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال پر نظر پڑی، جنہیں اُنہی کے ماتحت فورس کے جوان کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔
اسکرین پر ایسی صورتحال دیکھ کر مجھے جس قدر غصہ آیا وہ اظہار سے بالا ہے، اور میں سوچنے لگا کہ اگر میری حالت ایسی ہو رہی ہے تو احسن اقبال کی حالت کیا ہوگی؟ لیکن مجھے یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ انہوں نے کسی بھی قسم کے خوف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیمروں کے سامنے اپنے غصے کا بھرپور اظہار کردیا۔
پہلے تو انہوں نے چیف کمشنر سے انتہائی غصے میں سوال کیا کہ بتائیے کہ یہ ’بنانا ری پبلک ہے، یا آئینی ری پبلک؟‘ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی بلکہ اِس کے فوراً بعد صحافیوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’اب یہ دیکھا جائے گا کہ حکومت کی رٹ کو کس نے چیلنج کیا ہے، اور اگر یہ اصول ثابت نہیں ہوگا کہ ریاست اور سول انتظامیہ کی رٹ کیا ہے تو وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے کیونکہ وہ کسی بھی طور پر پَپِٹ وزیر داخلہ نہیں بن سکتے، کہ وزیر داخلہ وہ ہیں اور اُن کے ماتحت فورس کہیں اور سے حکم لے۔‘
چونکہ صبح ابھی بیدار ہی ہوا تھا تو جو جیسے دیکھا ویسے ہی اظہار بھی کردیا اور من ہی من سوچ لیا کہ، بس اب بہت ہوا، ملک میں جمہوریت ہی واحد نظام ہونا چاہیے، ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے، وزیرِ داخلہ نے بالکل ٹھیک بیان دیا ہے اور اُن کو فوری طور پر سول حکومت کے فیصلوں کو روندنے والوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
لیکن اب میرے پاس اِس موضوع کو دینے کے لیے مزید وقت نہیں تھا کیونکہ دفتر بھی جانا تھا، لہٰذا دفتر جانے کی تیاری کی اور کراچی کے بدترین ٹریفک میں پھنستے پھنساتے جب دفتر پہنچا تو دیگر مصروفیت نے آن گھیرا اور بات اِدھر اُدھر ہو گئی۔
دیکھیے: نواز شریف کے سیاسی عروج و زوال کی تصویری کہانی
دوپہر کے بعد اچانک کسی کام سے گزشتہ روز کے اخبارات چھانے تو یکدم میرے سامنے احتساب عدالت کے بیان پر مبنی خبریں آگئیں جس میں واضح طور پر وفاقی وزراء کو عدالت نہ آنے کا کہا گیا تھا۔ یہ خبر پڑھ کر پہلے تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ اگر اتنے واضح احکامات جاری ہو چکے تھے تو پھر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال بھلا وہاں کیا کرنے آئے تھے؟ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک دوست آگئے۔ ان دوست کی خاصیت ہمیشہ سے ہی یہ رہی ہے کہ اپنا ہر ایک فیصلہ لوگوں کی مشاورت سے کریں گے لیکن جب ملک کے نظام کو چلانے کی بات آئے تو فوری طور پر جمہوریت کو تباہ کن نظام قرار دیتے ہوئے کہہ دیں گے کہ بھائی مان لو، ہم لوگ ڈنڈے کے عادی لوگ ہیں، جب تک ڈنڈا نہیں ہوگا معاملات ٹھیک سے نہیں چلیں گے۔
اِس بار بھی کوئی مشورہ لینے ہی آئے تھے مگر چونکہ ہمارے یہاں کا یہ خاص مزاج ہوچکا ہے کہ بات کچھ بھی ہو رہی ہے سیاست کو بیچ میں لے آیا جاتا ہے، تو اِس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا، سنجیدہ گفتگو کے درمیان ہمارے دوست اچانک خوش ہوتے ہوئے کہنے لگے، ’ہاں بھائی دیکھا، آج کیسا وزیر داخلہ کو باہر روک دیا؟‘
عرض کیا کہ ’یار یہ کوئی اچھا عمل تو نہیں ہے جو آپ خوش ہو رہے ہیں۔ ملک کی منتخب حکومت کے اہم رکن ہیں، ملک کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں وہ، بھلا اُن کے ہی ماتحت ادارے کے افسران آخر کیسے اُن کی اِس طرح تذلیل کرسکتے ہیں؟‘
دوست کہنے لگے، ’ارے بھائی رہنے دو، جن لوگوں کو تم جمہوری کہہ رہے ہو نا، درحقیقت یہ بھی آمریت کی ہی ایک شکل ہیں، چونکہ یہ شکل وردی کے بجائے ٹائی کوٹ میں ہوتی ہے، اِس لیے لوگ سمجھ نہیں پاتے۔‘
میں نے اختلاف کرنے کی نیت سے ابھی بات کرنی چاہی تھی کہ اچانک وہ گویا ہوئے کہ ’یار یہ باتیں ہوتی رہیں گی، ابھی میں جارہا ہوں، اچانک ایک کام یاد آگیا ہے۔‘ یہ کہتے ہوئے وہ فوراً سے نکل گئے۔
اگرچہ اُس وقت تو میں اپنے دوست کی باتوں سے اختلاف کررہا تھا لیکن تنہائی میں بیٹھ کر اُن کی باتوں پر غور بچار کیا تو وہ کچھ زیادہ غلط بھی نہ لگے۔ اب دیکھیے نا، نواز شریف صاحب کو ملک کی معزز ترین عدلیہ نے نااہل کیا ہے، چونکہ ہمیں جمہوریت اِسی لیے پسند ہے کہ اِس نظام میں فرد واحد کی تقلید نہیں کی جاتی، تو ایسی جمہوریت میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزراء بھلا کیونکر نااہل وزیراعظم کے ساتھ عدالت آرہے ہیں؟ مسلسل کیوں اُنہی کو اپنا لیڈر کہہ رہے ہیں؟ کیا ن لیگ میں اور کوئی قابل فرد نہیں بچا جسے پارٹی کی قیادت سونپی جاسکے یا لیڈر تسلیم کیا جاسکے؟
پڑھیے: ’پاکستان تو بدل رہا ہے‘ آپ کو لگتا ہے، لیکن...
لیکن اِن خیالات کے باوجود بھی میرا اصولی اور واضح مؤقف یہی تھا کہ جمہوریت اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود آمریت سے بہتر ہے، جس کی وجہ یہ قطعی طور پر نہیں ہے کہ جن جن اشخاص نے طاقت کے نشے میں اداروں کو روندا ہے ان کا نام میرے پسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل نہیں ہے، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ فرد واحد کے مقابلے میں وہ فیصلہ ہمیشہ زیادہ بہتر اور مفید ثابت ہوتا ہے جو مشاورت سے کیا جائے۔
لیکن شام کو دفتر سے گھر پہنچتے ہی ہمارا یہ بھرم بھی ٹوٹ گیا کہ فرد واحد کے مقابلے میں مشاورت سے ہونے والا فیصلہ زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ شام میں یہ خبر ملی کہ حکومت نے سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی انتخابی اصلاحات بل 2017 منظور کروالیا جس کے تحت
’اب ہر پاکستانی شہری کسی بھی سیاسی جماعت کی رکنیت حاصل کرسکتا ہے، ہر وہ شہری جو سرکاری ملازمت نہیں کرتا ہو وہ ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ سکتا ہے، دوسری صورت میں ایک سیاسی جماعت سے منسلک ہوسکے گا، سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتا ہے اور ایک سیاسی جماعت کا عہدیدار بھی منتخب ہوسکتا ہے‘
حالانکہ ماضی میں یہ بات آئین میں واضح طور پر لکھی ہوئی تھی کہ
’ایسا کوئی شخص سیاسی جماعت کا عہدہ نہیں رکھ سکتا جو رکن قومی اسمبلی نہیں یا پھر اُسے آئین کے آرٹیکل 62، 63 کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہو‘
اب آپ چھوڑ دیجیے اِس بات کو نواز شریف ملک سے پیسے لے کر گئے ہیں یا نہیں، چھوڑ دیجیے اِس بات کو کہ انہوں نے کرپشن کی یا نہیں، چھوڑ دیجیے اِس بات کو کہ انہوں نے آف شور کمپنیاں بنائیں یا نہیں، لیکن اِس سب کے باوجود بھی اگر سپریم کورٹ آف پاکستان نے انہیں نااہل قرار دیا ہے تو یہ بات سب کو ہی ماننی چاہیے، کیونکہ اگر اِس ادارے کے فیصلوں کی تضحیک ہونا شروع ہوجائے یا پھر اِس کے فیصلوں پر من و عن عملدرآمد نہ کیا جائے تو یہ ممکن نہیں کہ ملک میں انارکی کی صورتحال کو روکا جاسکے۔
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ جمہوریت ہمیں تمام تر خرابی کے باوجود بھی قبول ہے تو اِس کا قطعی مطلب نہیں کہ ہمیں ایسی جمہوریت بھی قبول ہے جہاں اداروں کا مزاق اُڑایا جانے لگے۔ اگر جمہوریت میں بھی عدلیہ کے فیصلوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے تو مجھے یہ کہنے اور لکھنے دیجیے کہ یہ جمہوریت نہیں بلکہ آمریت کی ہی ایک کم ترین شکل ہے۔
پڑھیے: میاں صاحب نیلسن منڈیلا بھی تو نہیں ہیں ناں!
ستم تو دیکھیے کہ پاکستان کی ریاست کے اہم ترین ستون یعنی عدلیہ نے جس فرد یعنی نواز شریف کو جھوٹ کہنے اور کرپشن کی پاداش میں نااہل کیا، اُسی ریاست کے دوسرے اہم ترین ادارے یعنی پارلیمنٹ نے اُسی نااہل فرد کو آئین میں اپنی مرضی کی ترامیم کرکے ’اہل‘ بنادیا۔
اِس بات سے مکمل اتفاق ہے کہ حکومت اور مقننہ کو یہ مکمل اختیار ہے کہ وہ اکثریت کی بنیاد پر کوئی بھی بل یا ترمیم کو منظور کرسکتے ہیں، لیکن غیرت، حیاء اور گریس کو ایک طرف چھوڑ بھی دیا جائے تب بھی ملکی مفاد کو مدنظر رکھیں تو ایسے فیصلے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔
اگر معاملہ صرف یہاں تک ہوتا کہ ایک سرٹیفائیڈ کرپٹ یا سرٹیفائیڈ نااہل فرد کو ’اہل‘ بنانے کی زبردستی کی کوشش کی گئی ہے تو شاید پھر بھی قابلِ قبول ہوسکتا تھا کہ ماضی میں ہمیں کب صاف شفاف سیاست کرنے والے ملے ہیں بلکہ اصل پریشانی اور خوف تو یہ ہے کہ یہ عمل کرکے جمہوری نظام نے نیچے کی سطح تک لوگوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ اگر تم تعداد میں زیادہ یا طاقتور ہو تو ہر وہ کام کرسکتے ہو جو نہ صرف ملک کے آئین و قانون کے منافی ہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی ممنوع ہیں۔
جانتا ہوں کہ ہمارے لکھنے لکھانے سے کوئی بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ نہ صرف گزشتہ روز آئین میں ترمیم بھی ہوچکی بلکہ آج اُس پر عمل درآمد بھی ہوگیا، یعنی حکومت نے سپریم کورٹ کو بہت ہی پیار سے جواب دیا کہ آپ نے اپنے طور پر بہت اچھی کوشش کی، لیکن معذرت ہم زیادہ طاقتور ہیں، اِس لیے ’بیٹر لک نیکسٹ ٹائم‘۔
اب اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی خاموشی نہیں بلکہ مکمل خاموشی ہے، اور خیال، امید اور توقع یہی ہے کہ یہ خاموشی ایسے ہی رہے گی کیونکہ اگر اِس خاموشی کا حکومت کو یقین نہیں ہوتا تو وہ محض فرد واحد کے لیے کبھی ایسی جسارت نہیں کرسکتی تھی۔
لیکن آخر میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اصولی اور واضح مؤقف اب بھی یہی ہے کہ جمہوریت اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود آمریت سے بہتر ہے۔ یہ مؤقف اِس لیے قائم ہے کہ اتنا سب کچھ دیکھنے کے بعد میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ملک میں اِس وقت جمہوریت نہیں بلکہ مختلف شکل کی آمریت موجود ہے جو نظام کو بچانے کے لیے نہیں افراد کو بچانے کے لیے سرگرم ہے۔
فہیم پٹیل سینئر صحافی ہیں، آپ کا ای میل ایڈریس fahimpatel00@gmail.com ہے۔
آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: patelfahim@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔