میانمار،روہنگیا مہاجرین کی واپسی پر تیار ہے،بنگلہ دیشی وزیر کا دعویٰ
بنگلہ دیش کے اعلیٰ سفارتکار کا کہنا تھا کہ میانمار کے ایک وزیر نے فوجی کریک ڈاؤن کے بعد بنگلہ دیش نقل مکانی کرنے والے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کی تجویز دی ہے۔
تاہم بنگلہ دیشی وزیر خارجہ اے ایچ محمود علی کی جانب سے اس منصوبے کی کوئی تفصیلات نہیں دی گئیں اور اس حوالے سے شک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے کہ بنگلہ دیش میں موجود 8 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں میں سے کیا کوئی واپس میانمار لوٹے گا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق میانمار کی ریاست رخائن میں فوجی کریک ڈاؤن کے بعد گزشتہ پانچ ہفتوں کے دوران 5 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔
بدھ مت اکثریتی ملک میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اس کریک ڈاؤن کو اقوام متحدہ کی جانب سے ’نسل پرستی‘ کے مترادف قرار دیا گیا تھا۔
محمود علی اور میانمار کے دفتر خارجہ کے وزیر قونصلر کیاؤ ٹِنٹ وے کے درمیان یہ بات چیت، 25 اگست کو کشیدگی بڑھنے کے بعد پہلی بار اقوام متحدہ کے مبصرین کو رخائن میں رسائی دینے کے بعد ہوئی۔
اقوام متحدہ کے مبصرین، سفارتکاروں اور امدادی گروپوں نے میانمار کا ایک روزہ دورہ کیا جس کا انعقاد میانمار انتظامیہ نے کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار،روہنگیا مسلمانوں پرتشدد بند کرے،سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ
اقوام متحدہ کے نمائندوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے کشیدگی کے مرکز ماؤنگداؤ کا فضائی معائنہ کرایا گیا۔
محمود علی نے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کی حکومت کے نمائندے سے ان مذاکرات کو ’دوستانہ‘ قرار دیا۔
مذاکرات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میانمار نے روہنگیا مہاجرین کو واپس لینے کی تجویز دی ہے اور دونوں ممالک نے واپسی کے عمل کی نگرانی کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ کی تشکیل کی تجویز پر اتفاق کیا ہے۔‘
آنگ سان سوچی نے، جنہیں فوجی کریک ڈاؤن رکوانے میں ناکامی پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، گزشتہ ماہ کہا تھا کہ میانمار صرف ’تصدیق شدہ‘ مہاجرین کو واپس لے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل 1993 میں طے شدہ اصول کے مطابق ہوگا جب ہزاروں روہنگیا مسلمان نقل مکانی کے بعد واپس لوٹے تھے۔
بنگلہ دیشی وزیر نے روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا اور نہ ہی یہ بتایا کہ کیا میانمار ان 3 لاکھ مہاجرین کو بھی واپس لے گا جو پہلے ہونے والی کشیدگی کے بعد بنگلہ دیش ہجرت کرگئے تھے۔
مزید پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام، جبراً نقل مکانی پر پاکستان کو تشویش
انہوں نے کہا کہ مہاجرین کی تصدیق مشترکہ ورکنگ گروپ کرے گا، جبکہ اس عمل میں اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔
محمود علی نے کہا کہ ’بنگلہ دیش نے مہاجرین کی واپسی پر عملدرآمد کے لیے میانمار کو دوطرفہ معاہدے کی تجویز دی ہے۔
اگرچہ میانمار میں روہنگیا مسلمان کئی نسلوں سے آباد ہیں لیکن میانمار حکومت اس اقلیتی آبادی کو اپنا شہرین ماننے سے انکار کرتی ہے اور مسلمانوں کو بنگلہ دیش سے غیر قانونی پر ہجرت کرنے والے تصور کیا جاتا ہے۔