’میں کٹھ پتلی وزیر داخلہ نہیں بن سکتا‘
اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی پیشی کے موقع پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال سمیت وفاقی کابینہ کے دیگر ارکان کو کمرہ عدالت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر وزیر داخلہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس صورت حال کا جواب نہ دیا گیا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے کیوں کہ وہ کٹھ پتلی وزیر داخلہ نہیں بن سکتے۔
احتساب عدالت کے باہر میڈیا نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے مطابق نواز شریف نے خود کو احتساب کے عمل میں شریک کیا اور ان کا یہ حق ہے کہ ان کے ساتھ وکلاء اور ساتھی عدالت جاسکیں۔
احسن اقبال کے مطابق سابق وزیراعظم کی نیب ریفرنسز میں پیشی کے موقع پر رینجرز نے انہیں نواز شریف کے ساتھ عدالت میں داخل ہونے سے روک دیا، جس کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کی جائے گی۔
وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے چیف کمشنر کی نگرانی میں انتظامات مکمل کیے گئے تھے تاکہ عدلیہ کا وقار بھی برقرار رہے اور عدالت کا تقدس برقرار رکھتے ہوئے نواز شریف کے وکلاء اور ساتھیوں کو عدالت میں داخلے کی اجازت دی جاسکے، جیسا کہ یہ نواز شریف اور میڈیا کا بنیادی حق ہے کیونکہ عدالتیں ہر شخص کے لیے کھلی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'عدالتیں بند کمرے میں نہیں لگائی جاسکتیں، ایسا صرف آمرانہ ادوار میں ہوتا ہے، جمہوری حکومتوں میں آئین اور قانون کے تحت شفاف ٹرائل ہوتے ہیں اور یہ ہر شہری اور میڈیا کا بنیادی حق ہے کہ وہ ٹرائل کا مشاہدہ کرسکیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ کمرہ عدالت میں جگہ محدود ہے اس لیے چیف کمشنر نے یہ طے کیا تھا کہ کچھ میڈیا نمائندوں کو پاس جاری کیے جائیں گے تاکہ وہ کمرہ عدالت میں جاسکیں اس کے علاوہ نواز شریف کے ساتھ جانے والے ان کے ساتھیوں کی فہرست پر بھی اتفاق ہوا تھا۔
وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ تاہم صبح یکا یک صورت حال تبدیل ہوگئی اور چیف کمشنر نے مطلع کیا کہ ’اچانک رینجرز نمودار ہوئے ہیں اور انہوں نے عدالت کی سیکیورٹی اپنے ہاتھ میں لے لی ہے‘۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 'اسلام آباد میں رینجرز چیف کمشنر کے ماتحت ہیں، لیکن رینجرز کے کمانڈر نے چیف کمشنر کو بتایا کہ انہیں احکامات دیئے گئے ہیں اور ہم نواز شریف کے علاوہ کسی کو بھی اندر جانے نہیں دیں گے'۔
مزید پڑھیں: نواز شریف احتساب عدالت میں پیش، فرد جرم عائد نہ ہوسکی
وزیر داخلہ نے اس صورت حال کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'میں بحیثیت وزیر داخلہ اس صورت حال کا نوٹس لیے بغیر نہیں رہ سکتا'، ان کا کہنا تھا کہ رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں اور جب انہیں کہیں تعینات کیا جاتا ہے تو وہ سول انتظامیہ کے ماتحت کام کرتے ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ اگر رینجرز نے سول انتظامیہ اور چیف کمشنر کے احکامات کو ماننے سے انکار کیا ہے تو اس کی اعلیٰ ترین سطح پر نا صرف انکوئری ہوگی بلکہ اس بات کو بھی دیکھا جائے گا حکومت کی رِٹ کو کس نے چیلنج کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں مذکورہ معلومات کا جائزہ لینے کے لیے خود عدالت پہنچا تھا تاہم 15 منٹ تک رینجرز کے مقامی کمانڈر کو طلب کیے جانے کے باوجود وہ پیش نہیں ہوئے اور ’روپوش‘ ہوگئے جو قابل قبول نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جس کسی نے یہ کام کیا ہے اس کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی، ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ 'اگر یہ ثابت نہیں ہوگا کہ ریاست کی رِٹ کیا ہے اور سول انتظامیہ کی رِٹ کیا ہے تو میں وزیر داخلہ کے عہدے سے مستعفی ہوجاؤں گا'۔
وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ ’میں کٹھ پتلی وزیر داخلہ نہیں بن سکتا کہ وزیر داخلہ میں ہوں اور میرے ماتحت رینجرز کسی اور کے احکامات پر کارروائی کرے‘۔
ان کا کہنا تھا، 'یہاں ایک قانون ہوگا، ایک حکومت ہوگی، ایک ریاست میں دو ریاستیں نہیں چل سکتیں'۔
وزیر داخلہ کی پریس کانفرنس کے بعد رینجرز کمانڈر بریگیڈیئر آصف، لیگی وزراء کو منانے کے لیے احاطہ عدالت سے باہر آئے تاہم وزراء نے اس صورت حال کے بعد عدالت میں جانے سے انکار کردیا اور واپس پنجاب ہاؤس روانہ ہوگئے۔
دوسری جانب وزیر داخلہ نے احتساب عدالت کے باہر پیش آنے والے واقعے کی انکوائری کا حکام دے دیا۔
ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ کے نوٹس کے بعد سیکرٹری داخلہ نے چیف کمشنر، آئی جی، ڈی سی، ایس ایس پی کے ساتھ ساتھ سول انتظامیہ اور رینجرز کے کوآرڈی نیشن پلان کا ایس او پی بھی طلب کرلیا۔
وفاقی وزیر نے وزارت داخلہ کے حکام کو ہدایت کی کہ ڈی جی رینجرز سے رابطہ کر کے معاملے سے آگاہ کیا جائے اور پوچھا جائے کہ وزراء کو جوڈیشل کمپلیکس داخلے سے روکنے کا کس نے کہا تھا۔