میاں صاحب نیلسن منڈیلا بھی تو نہیں ہیں ناں!
اکیلے میاں نواز شریف ہی نہیں، بلکہ اُن کے بچے، اُن کے داماد اور اُن کے سمدھی یعنی کہ کوئی بھی احتساب کے اِس عمل سے نہیں بچ پایا جسے شریف خاندان انتقام کہہ رہا ہے۔
شریف خاندان کے خلاف مقدمات احتساب عدالتوں میں ہیں اور نظر کچھ یوں آ رہا ہے کہ نواز شریف سے جڑے سب کے سب لوگ عوامی عہدہ رکھنے کے قابل نہیں رہیں گے کیوں کہ نیب قانون کے تحت نااہلی کی کم از کم سزا بھی 10 برس ہے۔
فیصلے سے پہلے رائے نہیں دینی چاہیے، لیکن لگ کچھ یوں ہی رہا ہے کہ نواز شریف کو خاندان سمیت سیاسی طور پر تڑی پار کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے عین مطابق احتساب عدالت کی کارروائی شروع چکی ہے۔ دو اکتوبر کو میاں صاحب پر کرپشن مقدمات میں فرد جرم عائد ہونی ہے۔ امکان ہیں کہ میاں صاحب کے بیٹے اور بیٹی بھی اُسی دن عدالت میں پیش ہوجائیں گے۔
مان لیتے ہیں کہ نواز شریف پر بدعنوانی کے تمام تر الزامات اور ریفرنسز درست ہیں۔ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں سیاستدان ہی واحد مخلوق ہے جو تمام تر برائیوں کی جڑ ہے، جنہوں نے قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے، جو ملکی ترقی کے پہیے کو جام کردیتے ہیں، اور جو عوام کی ترقی میں موجود واحد رکاوٹ ہیں۔
میاں نواز شریف کی سیاست سے لے کر اُن کے طرزِ حکمرانی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، اور کیا جانا بھی چاہیے۔ اُن پر یہ الزام بھی ٹھیک ہے کہ وہ وفاق کو یکجا کرنے میں ناکام رہے، وفاقی سیاست کرنے کے اہل نہیں، وہ الجھے ہوئے معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاصی صلاحیت نہیں رکھتے۔
پڑھیے: نواز شریف کی وطن واپسی: وزیر اعظم، لیگی رہنماؤں سے ملاقاتیں
اُن کے سیاسی مخالف کہتے ہیں کہ وہ لاہور یا وسطی پنجاب کو ہی پورا ملک سمجھتے ہیں، اِس میں بھی شک نہیں کہ میاں صاحب اکثریت کو ناقابلِ اعتماد سمجھتے ہیں، اُن کا اپنی جماعت کے سینئر، خصوصی طور پر دوسرے صوبوں کے قائدین پر اعتبار کم ہوتا ہے، اِسی لیے انہوں نے مشاورتی کمیٹی کو ہی کچن کابینہ بنایا ہوا تھا۔
کچھ سچ یہ بھی ہے وہ کابینہ سے لے کر بیوروکریسی تک اپنے من پسند، دل پسند اور نور نظر لوگوں کو آگے لاتے ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد والے میاں صاحب میں زمین آسمان کا فرق آجاتا ہے۔ اُن کے نعرے اور وعدے سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ چلو مان لیتے ہیں کہ اُن پر کرپشن کے الزامات درست ہیں، لیکن پھر بھی سیاست کرنا اُن کا بنیادی حق ہے جس سے اُنہیں بے دخل کرنے کا حق کسی کو حاصل نہیں۔
یہ بات ماننی پڑے گی کہ ملک سیاستدانوں نے بنایا اور چلانا بھی انہوں نے ہی ہے۔ ایک جنبش قلم سے اُن کو نااہل کرنا عدالتی فیصلہ ضرور ہے لیکن اثاثے ظاہر نہ کرنے کو ملک و قوم سے غداری قرار دے کر اُن کی پھانسی اور اُن پر آرٹیکل 6 لگانے کے جو مطالبے ٹی وی چینلوں سے بلند ہو رہے ہیں، یہ اُن کی سیاست کو یرغمال بنانے کے مترادف ہے۔ یہ بھی انصاف نہیں کہ میاں نواز شریف کو کرپٹ کہہ کر اُن پر سیاست کے راستے بند کرکے اُن کے مقابلے میں کالعدم تنظیموں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ اگر انہیں شفاف ٹرائل کا موقع بھی نہ ملے تو بھی یہ اُن سے زیادتی ہوگی۔
احتساب اور قانون سب کے لیے کا نعرہ بہت خوبصورت اور آئیڈیل بھی ہے، لیکن عملاً ایسا ہونا بھی چاہیے۔ احتساب کے پل صراط سے صرف سیاستدان ہی کیوں گزریں؟ اگر قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کا نعرہ لگانا ہی ہے تو پھر سب سے پہلے گریبان اُن کا پکڑنا چاہیے جنہوں نے آئین کو محض چند صفحات کی ایک کتاب کہا، یا اُسی آئین کو پامال کرکے اپنے پاؤں تلے روندا۔
اگر وطنِ عزیز کو دولخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی تو کم از کم اُن ذمہ داران کی نشاندہی کرنے کے لیے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کو عام کیا جائے۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اُن کے خلاف بھی کچھ کہہ دینا چاہیے جنہوں نے وطن عزیز کو دہشتگردوں کی آماجگاہ، اکھاڑا اور پناہ گاہ میں تبدیل کیا، جنہوں نے کراچی کے کاروباریوں سے پیسے بٹور کرکے انتخابات میں مداخلت کی۔
پڑھیے: نواز شریف احتساب عدالت میں پیش،2 اکتوبر کو فرد جرم عائد ہوگی
اصغر خان مقدمے کے فیصلے سے بھی دھول ہٹنی چاہیے، اُن کے خلاف بھی ملکی قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے جنہوں نے آئین سے غداری کے مقدمے میں پیش ہونے کے بجائے مقدمات چلانے والی عدالت کے دروازے سے بھاگنے میں عافیت سمجھی، اور پھر اپنوں کی مدد سے اعلیٰ عدالتوں سے فیصلہ لے کر باہر چلے گئے۔ وہاں سے یہ اعلان بھی کردیا کہ باہر بھجوانے میں اُن کے 'بھائیوں' کا ہاتھ ہے، مگر پھر بھی یار دوست اِس بات پر بضد ہیں کہ اُس کے باہر چلے جانے میں ساری غلطی سیاستدانوں کی ہے۔
اب آتے ہیں میاں صاحب کی لندن روانگی اور اُن کی ملک واپسی پر۔ نواز شریف لندن کے ہسپتال کے سرجیکل وارڈ میں بیمار پڑی اپنی بیگم کو دیکھنے کیا گئے، یہاں سب نے ایک ساتھ شور ڈال دیا۔ کسی نے کہا کہ "ان کا سیاسی باب بند ہوچکا، اب واپس آنے کا سوال ہی نہیں، اگر لایا گیا تو انٹرپول اور ریڈ وارنٹ کے ساتھ آئے گا اور سیدھا جیل جائے گا۔"
لیکن یہ سب مفروضے یا شاید ڈھکی چھپی خواہشات اُس وقت دم توڑ گئیں جس دن میاں صاحب نے واپس آنے کا اعلان کردیا۔ پھر وہ وطن پہنچ بھی گئے اور عدالت میں پیش ہو کر پنجاب ہاؤس میں پرہجوم پریس کانفرنس میں اعلان بھی کردیا کہ وہ عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اُن کے بھاگ جانے کی خبریں کسی اور نے نہیں جانے پہچانے لوگوں نے چلائیں، اور پھر اُن پر تبصروں کا تڑکہ بھی خوب لگایا۔
اُن میں اکثریت ٹی وی پروگراموں میں طوطے کی فال نکالنے والے اینکر پرسنز، صحافت کی آڑ میں کسی اور کے ترجمان بنے میزبانوں، کان میں لگی بلیو ٹوتھ ڈوائس کے ساتھ کسی اور کا پیغام دینے آئے ہوئے تجزیہ نگار، حب الوطنی اور مسلم امہ کے ٹھیکیدار بنے سیاستدان، اقتدار کی گھات میں بیٹھے تانگہ پارٹیوں کے کوچوان نما سیاسی دعویداروں اور خود کو پیش گوئیوں کے ماہر سمجھنے والے پلانٹڈ لوگوں کی ہی تھی۔
پڑھیے: ن لیگ کی سیاست اور مریم نواز کا کردار
ایسے لوگ جب سے ٹی وی اسکرینوں اور سیاسی میدان میں اترے ہیں تب سے سب کچھ یرغمال یرغمال بنا ہوا سا لگتا ہے۔ یہ سیاستدان کم اور پیغام رساں، مخبر، سراغ رساں زیادہ ہیں، اور ان کے مقابلے میں میاں صاحب کے چاہنے والوں نے نواز شریف کی آمد کو بہادری، جرات مندی، ہمت، حوصلے، ولولے اور شجاعت سے تشبیہ دی۔ لیکن کون سی جرات کہاں کی بہادری؟ میاں صاحب کسی جنگی محاذ پر نہیں جا رہے بلکہ اپنے ملک اپنے گھر لوٹے ہیں، اُن پر عدالتوں میں مقدمات ہیں اور اُن کو بھگتنے ہی ہیں۔
ہاں یہ بات درست ہے کہ اِسی طرح ایک اور شخص بھی ملک سے باہر بیٹھا ہے جس پر مقدمات ہیں اور وہ واپس نہیں آرہا، مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ اِس کی وجہ سے دوسرے بھی مقدمات میں پیش نہ ہوں کہ وہ نہیں تو میں کیوں؟ سیاستدان کو عوام کا رول ماڈل ہونا چاہیے۔
میاں صاحب کو بھی پتا ہے کہ اب کی بار سرور پیلس کے مزے لیے تو پھر وہاں کا ہی ہو کر رہنا پڑے گا کیوں کہ عوام بھی سیاستدانوں کے ساتھ تب تک ہے جب تک وہ خود عوام کے ساتھ ہیں۔ میاں صاحب کوئی اکیلے، تن تنہا نہیں ہیں، اُن کے پاس اب بھی بہت کچھ موجود ہے، اُن کی سیاسی جماعت ہے، وفاق اور دو صوبوں میں اُن کی حکومتیں ہیں۔
ٹھیک ہے حالات میاں صاحب کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں لیکن اُن کی بقاء اُن قوتوں کے خلاف کھڑے ہونے میں ہی ہے جنہوں نے بقول اُن کے یہ سازش کی ہے۔ یہ درست ہے کہ اُن کو سب کچھ واپس ملنے کی امید کم ہے: اُن کا پچھلا انتخاب ناجائز تصور کرکے اُنہیں نکالا گیا لیکن آنے والا انتخاب بھی اُن کے ہاتھ میں نہیں لگ رہا۔
اگر کہا جائے کہ میاں صاحب نہیں آتے تو کیا ہوتا؟ کچھ نہیں ہوتا بس اُن کا سیاسی مستقبل تاریک ہوجاتا، اور کچھ نہیں ہوتا بس میاں صاحب پر یہ اسٹمپ مستقل بنیادوں پر لگ جاتی کہ وہ مشکل پڑنے پر بھاگنے کے عادی ہوچکے ہیں، پھر یہ بھی ہوتا کہ اُن کی جماعت تتر بتر ہوجاتی، جس کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔
پڑھیے: پنجاب انگڑائی لے رہا ہے
میاں صاحب کی جماعت میں اب بھی کچھ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروں کو تیل لگایا ہوا ہے، جو موقع کی تلاش میں ہیں کہ اُن کو ایک دن بھاگنا ہی ہے اور وہ بھاگ جائیں گے۔ اِس میں بھی غلطی میاں صاحب کی ہی ہے کیوں کہ اُن کی جماعت میں آدھے لوگ تو مشرّفی ذہنیت کے ہیں۔ ق لیگ کی جن باقیات کو میاں صاحب نے خوش آمدید کہا تھا، وہ بس گرین سگنل کی تیاری میں ہیں اور وہ سگنل ملتے ہی اڑ جائیں گے۔
اگر میاں صاحب نہیں آتے تو اُن کا سب سے بڑا نقصان آنے والے برس میں ہونے والے سینیٹ انتخابات میں ہونا تھا۔ اُس میں مسلم لیگ نواز کو امکانی طور پر اکثریت ملنے کے غالب امکان ہیں۔ اگر وہ نہیں آتے تو شاہد خاقان عباسی کی حکومت پر دباؤ بڑھ جاتا اور شاید وہ یہ دباؤ نواز شریف کی غیر حاضری میں برداشت نہیں کرپاتے۔ اِس وقت بھی قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ اِسی سلسلے کی کڑی بتایا جا رہا ہے۔
ایک اہم وفاقی وزیر کچھ دن پہلے مجھے بتا رہے تھے کہ "میاں صاحب خود اپنے لوگوں کا خیال نہیں رکھتے تو لوگ کیا کریں؟ سیاست بے رحم چیز ہے، وہ نیلسن منڈیلا تو ہیں نہیں کہ لوگ اُن کے ساتھ مستقل کھڑے رہیں۔ بقول اُن کے کہ لوگ تنگ ہیں، وزراء کو ایک بااثر بیوروکریٹ نے ایسا تنگ کیا ہے کہ ہم سوچ رہے ہیں کہ اجتماعی طور پر کابینہ سے مستعفی ہوجائیں۔ نئے وزیرِ اعظم کا کوئی اثر نہیں۔"
پڑھیے: دائیں سے درمیان تک: مسلم لیگ ن کا نظریاتی سفر
یہ صورتحال صرف حکومت کی ہی نہیں، حالات پارلیمنٹ کے بھی اچھے نہیں۔ پارلیمنٹ کی سطح پر ناکامی کا عالم یہ ہے کہ 21 ستمبر کو قومی اسمبلی کا جو اجلاس ملتوی ہوا ہے، اُس اجلاس میں حکومت چار دن مسلسل کورم پورا کرنے میں ناکام رہی۔ 190 سے زائد نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ نواز، جس کی کابینہ بھی پچاس لوگوں سے زائد ہے، وہ کورم کے لیے 86 ممبران بھی پارلیمنٹ میں نہیں لاسکتی تو اِس سے زیادہ پارلیمنٹ کی ناکامی کیا ہوسکتی ہے؟
ممبران کے پارلیمنٹ میں نہ آنے کا سبب وزیر موصوف یہ بتا رہے تھے کہ "لوگوں کے کام نہیں ہوتے، حکومت فنڈ دینے سے گریز کر رہی ہے، خود وزارتوں میں فنڈز کی کمی ہے، انتخابات نزدیک ہونے تک آدھے لوگ نہیں رہیں گے۔" نظریاتی سیاست کی جگہ نشستیں پوری کرکے حکومت بنانے کی سیاست کا حشر یہ ہی ہونا ہے۔
اِس نظام کی غیر یقینی کا عالم تو یہ ہے کہ کچھ دن پہلے سینیٹ چیئرمین میاں رضا ربانی اپنے کچھ دوستوں میں بیٹھے ہنسی مذاق میں یہ کہہ رہے تھے کہ "اکتوبر تک تو شاید ہم سب جیل میں ہوں گے۔" ایک مذاق ہی سہی، لیکن کیا کچھ ہونے والا ہے اِس کا علم تو سینیٹ چیئرمین کو بھی نہیں جو آئینی عہدہ رکھتے ہیں اور صدر مملکت کی غیر موجودگی میں ملک کے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالتے ہیں۔
اِس ملک میں ہر وقت کچھ نئے ہونے کی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ یہ سب کون کرتا ہے؟ ٹیکنوکریٹ حکومت، قومی حکومت، جن کا آئین میں کوئی ذکر نہیں یہ سب باتیں اِس سسٹم کی غیر یقینی کا ثبوت نہیں تو کیا ہے؟ اِن غیر یقینی حالات میں میاں صاحب کا سیاسی مستقبل تو یقینی حد تک تاریک ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
اِس میں کچھ اوکھیاں راہواں تو اپنی جگہ پر میاں دا مرن دا شوق کچھ زیادہ بھی تھا۔ پھر بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ ڈٹے رہے تو اُن کا سیاسی مستقبل کچھ قدر روشن لیکن اقتداری مستقبل تو تاریک ہو چکا ہے۔
مصنف سچل آرٹس اینڈ کامرس کالج حیدرآباد میں لیکچرر ہیں، اسلام آباد میں صحافت کا پندرہ سالہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں، سندھی اور اردو زبان میں ایک ہزار سے زائد مضامین تحریر کر چکے ہیں۔
ان سے ان کی ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہے: kumbharibrahim@gmail.com
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔