شراب برآمدگی کیس: عتیقہ اوڈھو کی سپریم کورٹ سے مداخلت کی استدعا
اسلام آباد: پاکستان کی معروف اداکارہ عتیقہ اوڈھو نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ کوئی بھی ٹرائل کورٹ بھی ان کے خلاف شراب برآمدگی کیس کو میرٹ کی بنیاد پر نہیں دیکھ رہی کیونکہ یہ کیس عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر رجسٹرڈ کیا گیا تھا، جس میں انہیں ملزم قرار دیا گیا تھا۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے عتیقہ اوڈھو کی درخواست پر سماعت کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ٹرائل کورٹ کو ہدایت کی جائے کہ وہ کیس کا ٹرائل میرٹ پر کریں۔
عتیقہ اوڈھو کے وکیل بیرسٹر سید علی ظفر نے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ پر زور دیا کہ ’تمام ٹرائل کورٹس نے ان کی بریت کی درخواستوں کو مسترد کردیا ہے‘۔
اس موقع پر کمرہ عدالت میں عتیقہ اوڈھو بھی موجود تھیں۔
مزید پڑھیں: عتیقہ اوڈھو شراب برآمدگی کیس میں بری
جون 2011 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عتیقہ اوڈھو کے سامان سے شراب کی دو بوتلیں برآمد ہونے کے باوجود ان کی رہائی پر از خود نوٹس لیا تھا۔
واضح رہے کہ ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس نے عتیقہ اوڈھو کے سامان سے مبینہ طور پر شراب برآمد ہونے پر انہیں اسلام آباد سے کراچی جانے والی فلائٹ پر سوار ہونے سے روک دیا تھا، تاہم بعد ازاں اے ایس ایف نے انہیں ایک ’بااثر شخصیت‘ کے کہنے پر جانے دیا تھا۔
جس پر عدالت عظمیٰ نے متعلقہ ڈپارٹمنٹ کو ہدایت کی تھی کہ عتیقہ اوڈھو سے متعلق رپورٹ پیش کریں کہ انہیں ایف آئی آر درج کیے بغیر کیوں جانے دیا گیا، عدالت نے نشاندہی کی تھی کہ اداکارہ کی رہائی امتیازی سلوک ہے۔
گذشتہ روز ہونے والی سماعت میں ایڈووکیٹ علی ظفر نے زور دیا کہ عتیقہ اوڈھو کے خلاف شائع ہونے والی غلط خبروں پر از خود نوٹس کی بنیاد پر کیس قائم کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ از خود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو عتیقہ اوڈھو کے خلاف مبینہ طور پر شراب لے جانے پر ایف آئی آر درج کرنے کو کہا گیا۔
علی ظفر نے زور دیا کہ ان کی موکلہ کے خلاف غلط اور غیر سنجیدہ کیس قائم کیا گیا بعد ازاں استغاثہ نے ثبوت پیش کیے، اب تک 8 گواہان نے اپنے بیان ریکارڈ کرائے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عتیقہ اوڈھو ایک اور پاکستانی فلم کا حصہ
وکیل کا کہنا تھا کہ ’اسی طرح ان کی موکلہ کو کرمنل پروسیڈنگ کوڈ کی دفعہ 256 کے تحت بریت کا حق حاصل ہے‘، انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو ان کی موکلہ کی درخواست کو میرٹ کی بنیاد پر خارج کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ تکنیکی بنیادوں پر اس کی سماعت کو ملتوی کیا جائے۔
انہوں نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ ٹرائل کورٹ کو قانون کے مطابق فیصلے دینے کی ہدایت دی جائے۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد ریاست کو نوٹسز جاری کیے اور متعلقہ ٹرائل کورٹ کو اُس وقت تک کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے روک دیا۔
یہ رپورٹ 27 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی