دنیا

امریکا، شمالی کوریا تنازع کا سفارتی حل چاہتا ہے، سیکریٹری دفاع

ہمارے پاس یہ صلاحیت موجود ہیں کہ شمالی کوریا کے انتہائی سنگین خطرات کا مقابلہ کر سکیں، جم میٹس

امریکی سیکریٹری دفاع جِم میٹس کا کہنا ہے کہ امریکا، شمالی کوریا نیوکلیئر تنازع کا سفارتی حل چاہتا ہے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی ’اے پی‘ کے مطابق نئی دہلی میں بھارتی ہم منصب سے ملاقات کے بعد بات کرتے ہوئے جم میٹس نے کہا کہ ’ہمارے پاس یہ صلاحیت موجود ہیں کہ شمالی کوریا کے انتہائی سنگین خطرات کا مقابلہ کر سکیں، لیکن ہم اس معاملے کو اپنے سفیروں کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔‘

خیال رہے کہ شمالی کوریا کے جوہری اور بیلسٹک تجربات کا معاملہ اس سال اقوام متحدہ میں سربراہانِ مملکت کے اجلاس میں بھی اہم موضوع بنا رہا جس میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا کہ کہیں لفظی تکرار واقعی جنگ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

ان خدشات نے اُس وقت مزید زور پکڑ لیا جب امریکی بمباروں نے 23 ستمبر کو شمالی کوریا کے اُس زون تک پرواز کی جہاں تک اس صدی میں کوئی امریکی ایئرکرافٹ نہیں گیا۔

بعد ازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی معاملے سے متعلق متنازع ٹویٹس نے جلتی پر تیلی کا کام کیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کی شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی دھمکی

نیویارک ہوٹل کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں شمالی کوریا کے وزیر خارجہ ری یانگ ہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ٹویٹس پر جواب دیا۔

ری یانگ ہو کا کہنا تھا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمارے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ امریکا نے ہمارے خلاف جنگ کا اعلان کردیا ہے اس لیے ہمیں جوابی اقدامات کا حق حاصل ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ حق بھی ہے کہ ہم امریکا کے اسٹریٹجک بمباروں کو مار گرائیں، چاہے وہ ہماری فضائی سرحد سے باہر ہوں۔‘

تاہم امریکا نے شمالی کوریا کے اس الزام کو ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کم جونگ ان کی حکومت کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ شمالی کورین وزیر نے ٹرمپ کے پیغام سے غلط نتیجہ اخذ کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارا ہکابی سینڈرز کا کہنا تھا کہ ’ہم نے شمالی کوریا کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کیا اور ایسی تجویز بھی مضحکہ خیز ہے۔‘

دوسری جانب شمالی کوریا کے پڑوسی اور واحد اتحادی چین نے متنبہ کیا ہے کہ کسی بھی تصادم کی صورت میں کوئی فاتح نہیں ہوگا۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لو کینگ کا کہنا تھا کہ لفظی گولہ باری سے صرف تصادم کا خطرہ بڑھے گا اور بات چیت کے ذریعے معاملے کے حل کے امکانات کم ہوجائیں گے۔