نقطہ نظر

پاکستان میں فروغ پاتی مقامی سیاحت

سیروتفریح کیلئے پنجاب، پختونخواہ، کشمیر اور گلگت بلتستان ہی نہیں بلکہ سندھ اور بلوچستان میں بھی بہترین مقامات موجود ہیں

کراچی شہر کو اللہ تعالی نے بھرپور آبادی سے تو نوازا ہے مگر اِس میں تفریح کے مواقع ملک کے دیگر علاقوں سے کچھ کم ہی ہیں۔ یہ دو سال پہلے کی بات ہے کہ جب مجھے اہل خانہ سمیت ایک شادی کے سلسلے میں راولپنڈی جانے کا اتفاق ہوا، اور شادی میں شرکت کے بعد دیگر شہروں میں موجود رشتہ داروں سے ملاقات بھی ہوئی۔ وہاں میں نے یہ خاص بات دیکھی کہ وہاں ہر کوئی گھومنے پھرنے اور سیر و تفریح کے لیے ہردم تیار ہی رہتا ہے۔

راولپنڈی اور اسلام آباد والوں کے پاس جائیں تو وہ مری کی سیر کروانے لازمی لے جاتے ہیں، شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ مری وہ خوبصورت اور پُر فضا جگہ جہاں اسلام آباد سے جانا سب سے آسان ہے۔ اگر مری جانے کا پروگرام نہ بن سکے تو پھر میزبان گھومنے پھرنے کے لیے مہمانوں کے سامنے سید پور، پاکستان یادگار، پاک۔چین دوستی مرکز، راول بند، شکر پڑیاں، لوک ورثہ، سلسلہ کوہ مارگلہ،دامن کوہ، پیر سہاوا، اسلام آباد چڑیا گھر، شاہدرہ باغ، قنطورس مال، قومی عجائب گھر برائے قدرتی تاریخ، نیلا ساندھ، فاطمہ جناح پارک، جھیل پارک، روز اینڈ جیسمین گارڈن، انقرہ پارک، پلے لینڈ، جاپانی پارک، دامنِ کوہ، فیصل مسجد، گولڑہ شریف، بری امام سمیت دیگر کئی مقامات کی ایک لمبی فہرست پیش کردیں گے۔

راولپنڈی و اسلام آباد سے نکل کر آبائی شہر جہلم پہنچا تو وہاں بھی بھتیجے اور بھتیجیاں اِس بات پر مصر رہے کہ چلیں کہیں گھومنے چلتے ہیں۔ حیران کن بات یہ رہی کہ اُن کے پاس بھی لمبی فہرست تھی جس میں رہتاس کا قلعہ، دریائے جہلم کی سیر، منگلا ڈیم، جنگل میں شکار اور مقامی افراد کی بہت سی چھوٹی چھوٹی مگر خوبصورت جاذب نظر سیر گاہیں نظر آئیں۔

جہلم سے نکلتے وقت ہم نے سوچا کہ اب جب جہلم تک آ ہی گئے ہیں تو کیوں نہ چکوال میں موجود اپنے سسرال بھی چلے جائیں۔ اب جب اتنے عرصے بعد سسرال جانے کا اتفاق ہو تو مہمان داری کا اندازہ آپ بھی خوب لگا سکتے ہیں۔ بس پھر کیا تھا، فوری طور پر ہمیں یہ ہدایات جاری کردی گئیں کہ ایک دن آرام کرلیں پھر کہیں گھومنے چلتے ہیں اور اِس مقصد کے لیے کٹاس، کلرکہار، پہاڑوں و آبشاروں اور نہ جانے کہاں کہاں سیر کے لئے لے جانے کی تیاری شروع کردی گئی۔

اِس قدر تفصیل سے گھوم پھر کر جب کراچی پہنچے تو یہاں پہنچتے ہی بیگم کو فکر لاحق ہوگئی کہ اگر یہ رشتہ دار کراچی آئے تو ہم اُنہیں سیر کے لیے کہاں کہاں لے جاسکتے ہیں؟

اِس پریشانی کو حل کرنے کے لیے ہم نے تفریحی مقامات کی ایک فہرست اُن کے سامنے رکھی، جس میں الہ دین پارک، بن قاسم پارک، سفاری پارک، عزیز بھٹی پارک، قومی عجائب گھر پاکستان، مزار قائد، منوڑہ، موہٹہ پیلس، آثار بحریہ، پی اے ایف میوزیم، ہل پارک وغیرہ وغیرہ کے نام موجود تھے، لیکن بیگم نے یہ فہرست پڑھتے ہی فوری طور پر مسترد کردی اور نئے اچھوتے تفریحی مقام تلاش کرنے کی ہدایت کردی۔

کراچی میں رہنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام کتنا مشکل تھا، لیکن چونکہ بیگم کا حکم تھا اِس لیے ہمت کی اور سوشل میڈیا پر تلاش اور جستجو کے بعد بہت سی ایسی ٹورازم کمپنیوں کا انکشاف ہوا جو کہ کراچی کے اطراف چند گھنٹوں کی مسافت پر بہترین پکنک کا اہتمام کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔

اگر آپ نے کشتی کی سواری اور اسکوباڈایؤنگ کرنی ہو تو چرنا آئی لینڈ سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ کراچی سے باہر جانا ہو تو گڈانی اور مزید آگے جانے کی خواہش ہو تو مکران کوسٹل ہائی وے پر کنڈ ملیر کا ساحل، بوزی پاس، پرنسس آف ہوپ اور نانی مندر بہتر آپشن ثابت ہوسکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ پیرا گلائیڈنگ کے مواقع بھی مکمل طور پر موجود ہیں۔

اگر مزید ایڈوینچر کرنا ہو تو موٹرسائیکل یا آف روڈ گاڑیوں پر خضدار کے ٹھنڈے پانی کے چشموں یا غاروں کے شہر کا دورہ ہوسکتا ہے۔ اِس کے علاوہ گورکھ ہلز اور کیرتھر نیشنل پارک، تھرپارکر کا صحرا اور ننگر کے پہاڑ بہترین سیاحتی مراکز ہیں۔

اِس تلاش کے بعد اندازہ ہوا کہ پاکستان میں سیر و تفریح کے لیے پنجاب، خیبر پختونخواہ، کشمیر اور گلگت بلتستان ہی موضوع نہیں بلکہ سندھ اور بلوچستان میں بھی گھومنے پھرنے کے حوالے سے بہترین مقامات موجود ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں امن کے قیام کے ساتھ ساتھ سیاحت بھی فروغ پارہی ہے تو قطعی طور پر غلط اور بے جانہ نہیں ہوگا۔

لیکن افسوس بس یہ ہے کہ پاکستان میں دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ سیاحت کو بھی مسلسل بُری طرح نظر انداز کیا جارہا ہے، حالانکہ سنگاپور، تھائی لینڈ، فلپائین، ترکی، اٹلی اور دیگر ممالک کی آمدنی کا بڑا حصہ سیاحت سے ہی ملتا ہے۔

ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم کونسل (ڈبلیو ٹی ٹی سی) کے مطابق عالمی معیشت میں سیاحت کا حصہ 7.6 ہزار ارب امریکی ڈالر ہے۔ یوں کہہ لیجیے کہ سیاحت سے حاصل ہونے والی آمدنی عالمی جی ڈی پی کا 10.2 فی صد ہے۔ اِس حوالے سے اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر 29 کروڑ سے زائد افراد سیاحت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

ڈبلیو ٹی ٹی سی کے مطابق پاکستان میں سیاحت کے بہترین مواقعوں کے باوجود اِس کا معاشی ترقی میں حصہ بہت کم ہے۔ پاکستانی معیشت میں سیاحت کا حصہ 793 ارب روپے ہے، یعنی ملکی جی ڈی پی کا صرف 2.7 فیصد۔ اِس بُری صورتحال کے باوجود بھی سال 2016 میں شعبہ سیاحت نے پاکستان میں 13 لاکھ 37 ہزار ملازمت فراہم کی، اگر اِس شعبے پر تھوڑا بھی دھیان دے دیا جائے تو ہمارے لیے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ملکی معیشت کو اِس حوالے سے کس قدر فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہاں آپ کو یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ پاکستان میں سیاحتی انفراسٹرکچر میں مجموعی سرمایہ کاری 375 ارب روپے ہے۔

پاکستان میں سیاحت کے اِتنے زیادہ مواقع موجود ہیں کہ نہ صرف مقامی سیاح بلکہ غیر ملکی سیاح بھی یہاں آسکتے ہیں، بلکہ ماضی میں آتے بھی رہے ہیں۔ پاکستان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں گرم ترین اور سرد ترین دونوں ہی خطے موجود ہیں۔ یہاں وسیع سمندر ہے تو قدیم تاریخی مقامات بھی ہیں۔ یہ تمام اجزاء سیاحوں کی کشش کا سبب ہیں مگر غیر ملکیوں کو یہاں لانے کے لیے بہترین انفرااسٹرکچر کی ضرورت ہے جو ابھی یہاں موجود نہیں۔

نادیان ملک پاکستان میں ہوٹل کی آن لائن بکنگ کا ویب پورٹل آپریٹ کرتی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاحت تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ اب لوگ مری، کاغان، ناران کے علاوہ وادی نیلم، سوات اور دیگر علاقوں کا رخ کررہے ہیں اور ہر سال سیاحوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ اِس شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 2016 میں ان کے ادارے نے شمالی علاقوں میں ایک سو سے زائد نئے ہوٹلز کو رجسٹر کیا جبکہ مزید ہوٹلز، موٹلز اور ریسٹ ہاوسز زیرِ تعمیر بھی ہیں۔

نادیان کا کہنا ہے کہ ملک میں جہاں جہاں سڑکیں بن رہی ہیں وہاں وہاں سیاح پہنچ رہے ہیں، مگر سیاحوں کی بڑھتی تعداد کے مقابلے میں رہائشی کمروں کی دستیابی نہیں بڑھ رہی ہے اور اِس معاملے میں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ٹریول اینڈ ٹور آپریٹ کے کاروبار سے منسلک یحی پولانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاحت کو اب تک صنعت کا درجہ نہیں دیا جاسکا جس کی وجہ سے نہ تو بینک قرضہ دیتے ہیں اور نہ ہی حکومتی سطح پر سرپرستی ملتی ہے۔ 20 کروڑ آبادی کے ملک میں چار کمرشل ایئر لائینوں کے باوجود ہوائی جہازوں کی تعداد ایک سو سے بھی کم ہے۔

ہمارے دوست عادل جدون جو کہ کچھ عرصے قبل تک شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ تھے، مگر اب وہ کل وقتی سیاح ہیں اور لوگوں کو سیاحت سے متعلق مشورے بھی دیتے ہیں۔ عادل جدون کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صوبہ سندھ اور بلوچستان میں بہت سے سیاحتی مقامات ہیں اور اُن مقامات پر نہ تو امن و امان کا کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی وہاں پر دیگر سیاحتی مقامات کی طرح کے مسائل ہیں۔ یہاں کے لوگ سادہ اور مہمان نواز ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں اب کہیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔

جو لوگ ایڈوینچر کے دیوانے ہیں اُن کے لیے سندھ اور بلوچستان میں بہت کچھ موجود ہے۔ بلوچستان کے اکثر مقامات پر سیاحت کے لئے بذریعہ موٹر سائیکل بہت سے گروپس جاتے ہیں۔ عادل جدون کا کہنا ہے کہ مقامی آبادی سے تعلق قائم کرنے کے لیے سیاحت قلیدی کردار ادا کرسکتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے اِن علاقوں میں بسنے والے عوام اپنے روایتی طور طریقوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ معاشی طور پر کمزور ہیں مگر مہمان نوازی میں ان سے زیادہ خوشادہ دل کم ہی لوگوں کا ہے۔

ہاں لیکن یہ بات بہرحال بہت اہم ہے کہ سیاحوں کو اِن علاقوں میں گھومتے اور تصاویر بناتے وقت اِس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہیئے کہ مقامی افراد خصوصاً خواتین کی تصاویر نہ بنائیں۔ ساتھ ساتھ اگر مقامی افراد کے لیے تحفہ تحائف بھی لے جائیں تو اِس طرح اِن کے دل جیتے جاسکتے ہیں۔

علاقوں کی سیاحت کے ساتھ ساتھ مقامی افراد سے بات چیت بھی ایک انوکھا اور دلچسپ تجربہ ہوتا ہے۔ اِن افراد سے بات چیت کی جائے تو نہ صرف اِن دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کی مشکلات بلکہ مقامی داستانیں اور بہت کچھ سننے کو ملتا ہے۔

ضلع تھر پارکر اور ننگر پارکر کی سیر کے دوران جب مقامی افراد سے بات چیت اور گپ شپ کا موقع ملا تو انہوں نے صحرا خصوصاً نگر کے پہاڑ سے متعلق بہت سی کہانیاں سنائیں۔ وہاں کے پہاڑ سے منسوب ہے کہ یہ ایک کلو سونا روزانہ دیتا ہے۔ یہ بات کچھ ہضم نہیں ہوئی تو معلوم کرنے پر ہمارے مقامی دوست نے بتایا کہ اِس کا مطلب ہے کہ پہاڑ سے بہت سی جڑی بوٹیاں ملتی ہیں جس کی مالیت ایک کلو سونے کے مساوی ہوتی ہے۔

پاکستان میں سیاحوں سے پیدا کردہ سب سے بڑی مشکل اور خرابی گندگی کے ڈھیر ہیں جس میں سے بڑا مسئلہ پلاسٹک یا ایسی چیزیں ہیں جوکہ خود بہ خود گھل کر ختم نہیں ہوتی ہیں۔ میرا دو مرتبہ کنڈ ملیر جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ پہلی مرتبہ 2003 اور دوسری مرتبہ گزشتہ سال یعنی 2016 میں گیا تھا۔ جب 2003 میں وہاں گیا تو یہ ساحل نہایت ہی خوبصورت اور صاف ستھرا تھا، مگر بدقسمتی سے جب گزشتہ سال گیا تو یہاں گندگی نہ صرف ساحل پر نظر آئی بلکہ کراچی کی طرح پلاسٹک کے تھیلے، بوتلیں اور دیگر اشیاء سمندر میں بھی تیرتی نظر آئیں۔

اِس حوالے سے سیاحوں کو خصوصی توجہ دینا ہوگی کہ اِن جگہوں کو گندگی سے پاک رکھا جائے۔ یہ معاملہ محض کند ملیر یا مخصوص تفریحی مقامات تک محدود نہیں ہے بلکہ گندگی کا یہی حال شمالی علاقہ جات میں جانے والے سیاحوں کی وجہ سے بھی پیدا ہورہا ہے۔ اِس حوالے سے مقامی سیاحوں میں شعور اجاگر کرنا ہوگا کہ اگر انہوں نے اپنے شہروں کی طرح اِن قدرتی اور تفریحی مقامات کو بھی گندا کردیا تو پھر اُن کے پاس تفریح کے لئے کچھ نہ بچے گا۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔