پاکستان

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی جمہوریت

پاکستان میں جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتوں میں سے بیشتر کی قیادت نسل در نسل سربراہی کرتی آرہی ہے۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی جمہوریت

تحریر: عبدالرشید

پاکستان میں سب ہی سیاسی جماعتیں جمہوریت مضبوط کرنے کی دعویدار تو ہیں، تاہم ایک آدھ سیاسی جماعت کے علاوہ کوئی ایسی پارٹی مشاہدے میں نہیں آئی، جو اندرونی طور پر جمہوریت پر عمل پیرا ہو۔

الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق پاکستان کی 345 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، تاہم ان میں سے فعال اور متحرک سیاسی جماعتوں کی تعداد نصف بھی نہ ہوگی، جو جماعتیں متحرک نظر آتی ہیں اور انتخابات میں بھی حصہ لیا ہو، ان کی تعداد اس سے بھی کم ہے۔

ملک کی موجودہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس سے قبل حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سمیت متعدد جماعتوں پر قیادت نسل در نسل کوئی ایک ہی خاندان کرتا آیا ہے جبکہ ملک کی دیگر جماعتیں بھی ان ہی کی پیروی کرتی نظر آتی ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے متعدد مرتبہ تاکید کی جاتی رہتی ہے جبکہ اس حوالے سے متعدد جماعتوں کی جانب سے انٹرا پارٹی کے نتائج بھی الیکشن کیمشن میں جمع کرائے جاتے ہیں تاہم بیشتر نتائج میں سیاسی جماعت کی نچلی قیادت تو تبدیل ہوجاتی ہے، تاہم سربراہی، جس میں چیئرمین شپ یا صدارت شامل ہے، اس میں تبدیلی نہیں ہوتی، سوائے اس کے کہ 28 جولائی 2017 جیسا عدالتی فیصلہ سامنے آجائے اور جماعت کے سربراہ کو نہ صرف نااہلی کی وجہ سے وزارت عظمیٰ چھوڑنا پڑے بلکہ پارٹی کی قیادت بھی چھوڑنی پڑ جاتی ہے۔

اس رپورٹ میں ملک کی کچھ سیاسی جماعتوں کے قیام اور ان کے سربراہان سے متعلق تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔


پاکستان مسلم لیگ (ن)

قائم مقام : صدر سردار محمد یعقوب خان ناصر

نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے دو دہائیوں سے زائد سربراہ رہے

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بنیاد 17 اگست 1988 کو رکھی گئی تھی اور ابتدا میں اس پارٹی کے قائم مقام صدر سردار یعقوب تھے بعد ازاں 1993 میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت نواز شریف نے سنبھالی اور وہ جولائی 2017 تک مذکورہ پارٹی کے صدر رہے۔

تاہم 28 جولائی 2017 کے سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس پر فیصلے میں نواز شریف کو نااہل قرار دینے اور نیب کو ان کے خلاف کارروائی کے حکم کے بعد نواز شریف نہ صرف وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش ہوئے بلکہ الیکشن کمیشن کی ہدایت پر انہیں پارٹی کی صدارات بھی چھوڑنا پڑی، جس کے بعد پارٹی نے مشاورت سے دوبارہ سردار یعقوب کو پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کرلیا۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) پارلیمان میں ایسے اصلاحات لانے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ اگر پارٹی کے صدر کو نااہل بھی قرار دے دیا جائے تو وہ پارٹی کے سربراہ کے طور پر برقرار رہے۔

مسلم لیگ (ن) تین بار 1990، 1996 اور 2013 میں انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی، جبکہ 23 سال میں 3 بار مرکزی حکومت بنانے کا موقع ملنے پر ہر بار نواز شریف کو ہی وزیر اعظم بنایا گیا، تاہم سپریم کورٹ سے پاناما پیپرز کیس کے فیصلے میں نواز شریف کے نااہل ہونے پر پہلی بار مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں کسی اور رہنما کو وزیر اعظم بننے کا موقع مل سکا، اور شاہد خاقان عباسی نے دوماہ قبل یکم اگست 2017 کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔


پاکستان پیپلز پارٹی

چیئرمین : بلاول بھٹو زرداری

2007 میں بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد بلاول بھٹو زرداری پیپلزپارٹی کے سربراہ مقرر ہوئے تھے

پی پی پی کا قیام 1967 میں عمل میں آیا تھا یہ ایک سوشلسٹ سیاسی جماعت ہے، ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پارٹی نے 1970 کے عام انتخابات میں حصہ لیا تاہم بنگلہ دیش علیحدہ ہونے کے بعد 1971 میں انہیں صدر بنا کر ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ بعد ازاں وہ 1973 سے 1977 تک ملک کے وزیراعظم رہے اور پی پی پی نے 1977 کے عام انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی تاہم جنرل ضیاء الحق نے انہیں زبردستی اقتدار سے علیحدہ کیا اور 1979 میں انہیں پھانسی دے دی گئی۔

اس کے بعد 1988 میں ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بینظیر بھٹو اپنی والدہ کے ہمراہ وطن واپس آئیں اور ان کی قیادت میں پی پی پی نے 1988 کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔

پرویز مشرف کے دور آمرانہ دور حکومت میں بینظیر بھٹو نے ایک مرتبہ پھر جلا وطنی کی زندگی گزاری اور ایک معاہدے کے بعد جب وہ وطن واپس آئیں تو انہیں 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا جس کے بعد پی پی پی کی قیادت ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے سنبھالی، بلاول بھٹو زرادری کی قیادت میں پی پی پی نے 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں حصہ لیا جبکہ وہ تاحال پارٹی کے چیئرمین ہیں، جبکہ ان کے والد آصف علی زرداری پی پی پی کے شریک چیئرمین ہیں اور پارٹی کے فیصلے ان کی مشاورت سے ہوتے ہیں۔


پاکستان تحریک انصاف

چیئرمین : عمران خان

عمران خان نے 1996 میں پارٹی کی بنیاد رکھی، جس کے بعد وہ مسلسل اس کے سربراہ ہیں

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد پاکستان کے سابق نامور کرکٹر عمران خان نے 1996 میں رکھی تھی، اس جماعت نے 2002، 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں شرکت کی۔

پی ٹی آئی 2002 کے الیکشن میں صرف ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی تاہم 2008 میں پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

بعد ازاں 2013 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے بھر پور شرکت کی اور ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھری جس نے قومی اسمبلی میں 27 نشستیں حاصل کیں جبکہ ووٹوں کے تناسب سے پی ٹی آئی دوسرے نمبر رہی اور اس نے 75 لاکھ 53 ہزار 504 ووٹ حاصل کیے۔

دریں اثنا پی ٹی آئی نے جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی۔

عمران خان تا حال پارٹی کے چیئرمین ہیں جبکہ دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے مذکورہ پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔


متحدہ قومی موومنٹ

کنوینئر : فاروق ستار

فاروق ستار الطاف حسین کی 22 اگست 2016 کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت کر رہے ہیں

الطاف حسین نے 1978 میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کی بنیاد رکھی تھی جو بعد میں 1984 میں مہاجر قومی موومنٹ کے قیام کا باعث بنی تاہم 1997 میں الطاف حسین نے پارٹی کے نام سے قبل لفظ مہاجر، جو تقسیم ہند کے وقت پاکستان آنے والے اردو اسپکینگ افراد کی نمائندگی کرتا تھا، اس کی جگہ لفظ متحدہ استعمال کیا اور مہاجر قومی موومنٹ سے یہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل ہوگئی، جس کے بعد مذکورہ پارٹی نے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بعد ملک کی چوتھی بڑی جماعت اُبھر کر سامنے آئی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق ایم کیو ایم کے کنوینئر فاروق ستار ہیں اور یہ پارٹی ان کے نام سے رجسٹر ہے تاہم دوسری جانب اس کی قیادت الطاف حسین کے پاس تھی۔

الطاف حسین 1991 میں پاکستان سے فرار ہو کر لندن میں مقیم ہوگئے تھے اور سیاسی پناہ حاصل کرنے کے بعد وہاں سے پارٹی کے معاملات کو چلارہے تھے۔

اگست 2016 میں کراچی پریس کلب کے باہر ہونے والے پارٹی کے دھرنے میں پاکستان اور اس کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تقرریر کرنے اور دھمکیاں دینے کے بعد شہر کے ریڈ زون میں ہنگامہ آرائی کا واقعہ رونما ہوا اور یہاں سیکیورٹی اداروں نے ایم کیو ایم کے متعدد کارکنوں اور رہنماؤں کو حراست میں لیا، جس کے دوسرے ہی روز پارٹی کی پاکستان میں موجود قیادت نے الطاف حسین سے علیحدگی کا اعلان کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی متحدہ قومی موومنٹ کے دو حصے وجود میں آگئے ہیں جس میں سے ایک لندن اور دوسرا دھڑا پاکستان میں موجود ہے۔


جماعت اسلامی

امیر : سراج الحق

سراج الحق 2014 میں جماعت اسلامی کے امیر بنے

جماعت اسلامی کا قیام 1941 میں قیام پاکستان سے قبل وجود میں آیا تھا اور اس کی بنیاد ابو الاعلیٰ مودودی نے رکھی تھی ، جو ایک اسلامی اسکالر تھے، قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے جماعت نے مغربی پاکستان کا رخ کیا اور جماعت کے پیچھے رہ جانے والے رہنماؤں نے اسے جماعت اسلامی ہند کا نام دیا۔

اس جماعت نے مختلف ادوار میں مختلف نشیب و فراز دیکھے، مودودی 1940 سے 1972 تک اس جماعت کے سربراہ رہے اور 1972 میں انہوں نے علالت کے باعث جماعت کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا اور 1979 میں ان کے انتقال ہوگیا۔

مولانا مودودی کی زندگی میں ہی میاں طفیل محمد جماعت اسلامی کے سربراہ مقرر ہوئے وہ 1972 سے 1987 تک جماعت کے امیر رہے اور اسی سال انہوں نے صحت کی خرابی کے باعث جماعت کے معاملات سے علیحدگی اختیار کرلی، جس کے بعد قاضی حسین احمد کو جماعت کا نیا امیر مقرر کیا گیا۔

بعد ازاں قاضی حسین احمد 2008 میں جماعت اسلامی کی قیادت سے سبکدوش ہوگئے اور کچھ سال بعد انتقال کرگئے۔

قاضی حسین کے قیادت سے سبکدوش ہونے کے بعد 2008 میں سید منور حسن کو جماعت اسلامی کا امیر مقرر کیا گیا تاہم 2014 میں سراج الحق نے ان کی جگہ لی اور وہ تا حال جماعت کے امیر ہیں۔


جمعیت علماء اسلام

سربراہ : مولانا فضل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت مرکزی حکومت کی اتحادی ہے

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کا قیام 1945 میں عمل میں آیا تھا تاہم 1988 میں اندرونی اختلافات کے بعد اس میں دھڑے بندیاں سامنے آئیں اور جمعیت علماء اسلام (ف) کی قیادت مولانا فضل الرحمٰن جبکہ جمعیت علماء اسلام (س) کی قیادت سمیع الحق کے حصے میں آئی اور دونوں رہنما تا حال اپنی جماعتوں کے سربراہ برقرار ہیں۔

دونوں ہی جماعتیں ملک میں دیو بندی مکتبہ فکر کی نمائندگی کررہی ہیں اور دونوں ہی جماعتوں پر شدت پسند تنظیموں کے قریب رہنے کا الزام لگایا جاتا ہے تاہم دونوں نے مذکورہ الزمات کی تردید کی ہے۔

سربراہ : مولانا سمیع الحق

مولانا سمیع الحق نے 1988 میں اپنی الگ تنظیم کی بنیاد رکھی تھی

دونوں ہی جماعتوں کی بنیاد خیبرپختونخوا میں رکھی گئی تھی جبکہ انہیں بلوچستان میں بھی کافی پذیرائی حاصل ہوئی تاہم جمعیت علماء اسلام سمیع الحق گروپ کو ملک کے عام انتخابات میں وہ پزیرائی نہیں ملی جو جمعیت علماء اسلام فضل الرحمٰن کے گروپ کو ملی، اس جماعت نے ملک کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نسشتیں بھی حاصل کیں جبکہ یہ جماعت سینیٹ میں بھی نمائندگی رکھتی ہے۔


پاکستان مسلم لیگ (ق)

چیئرمین:چوہدری شجاعت حسین

چوہدری شجاعت حسین 2004 میں 57 دن کے لیے وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں

یہ جماعت 2002 میں اس وقت کے آمر جنرل پرویز مشرف کی مکمل حمایت پر وجود میں آئی تھی اور اس کے چیئرمین چوہدری شجاعت تاحال اپنی نشست پر براجمان ہیں۔

خیال رہے کہ اس جماعت نے 2002 میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور وزیراعظم بھی اسی جماعت سے منتخب ہوئے تھے تاہم اس کے بعد 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں یہ پارٹی قابل قدر نشستیں نہ حاصل کرسکی یہاں تک چوہدری شجاعت بھی اپنی نسشت کھو بیٹھے۔


پاکستان مسلم لیگ (فنگشنل)

چیئرمین : پیر صبغت اللہ شاہ پیر پگارا

پیر صبغت اللہ شاہ پیر پگارا

پاکستان مسلم لیگ (ف) کا قیام 1965 میں عمل میں آیا تھا جب محترمہ فاطمہ جناح نے ایوب خان سے الیکشن میں شکست کے بعد اس کی بنیاد رکھی تاہم محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کےبعد اس جماعت کی قیدت کرنے والا کوئی نہ تھا، بعد ازاں 1985 میں یہ سیاسی جماعت اس وقت دوبارہ منظر عام پر آئی جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے محمد خان جنیجو کو لیگی اتحاد کا صدر منتخب کرنے کی کوشش کی۔

جس کے جواب میں پیر پگارا سید شاہ مردان شاہ دوم نے پاکستان مسلم لیگ سے اپنی راہیں جدا کیں اور پاکستان مسلم لیگ فنگشنل کی قیادت سنبھال لی۔

پیر پگارا کے نام سے معروف سید شاہ مرادن شاہ دوم حر جماعت آرگنائزیشن کے روحانی پیشوا بھی تھے جبکہ 2012 میں ان کے انتقال کے بعد ان کے صحبزادے سید صبغت اللہ شاہ راشدی نے ان کی نشست سنبھالی اور آٹھویں پیر پگارا منتخب ہوئے۔

خیال رہے کہ اس جماعت نے 2002 میں 4، 2008 کے عام انتخابات میں دوبارہ 4 جبکہ 2013 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی 6 اور صوبائی اسمبل کی 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔


پاکستان مسلم لیگ (ضیاء الحق)

صدر : محمد اعجاز الحق

محمد اعجاز الحق کے والد جنرل ضیاء الحق پاکستان کے فوجی صدر رہے

یہ سیاسی جماعت 2002 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل وجود میں آئی تھی تاہم الیکشن میں کامیابی کے بعد پارٹی کے صدر نے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ اتحاد قائم کرلیا تھا۔

بعد ازاں 2008 کے انتخابات میں ناکامی کے بعد اعجاز الحق، جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے نے مسلم لیگ (ق) سے 2010 میں اپنی راہیں جدا کرلی تھیں۔

2013 میں اعجاز الحق کی پارٹی نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 191 سے کامیابی حاصل کی جبکہ پنجاب اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب قرار پائی۔


آل پاکستان مسلم لیگ

صدر : پرویز مشرف

جنرل پرویز مشرف ملک کے فوجی سربراہ رہے، دور اقتدار ختم ہونے کے بعد 2010 میں اپنی جماعت بنائی

آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیاد 2010 میں رکھی گئی تھی جس کی صدارت جنرل (ر) پرویز مشرف کررہے ہیں۔

2013 میں اس جماعت نے چترال میں ایک قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔

یاد رہے کہ جنرل پرویز مشرف نے 1999 میں اس وقت کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کا اقتدار سنبھالا تھا، وہ 2001 میں ملک کے صدر منتخب ہوئے اور 2008 تک اس عہدے پر برقرار رہے۔

تاہم پرویز مشرف، بینظیر بھٹو قتل اور نواب اکبر بگٹی قتل کیسز میں نامزد ہیں اور ان دنوں بیرون ملک مقیم ہیں۔


پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹریرنز

صدر آصف علی زرداری

آصف علی زرداری، مخدوم امین فہیم کے انتقال کے بعد پی پی پی پی کے سربراہ بنے تھے

مشرف دور میں بینظیر بھٹو کی جلا وطنی کے دوران مخدوم امین فہیم نے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹریرنز کے نام سے سیاسی جماعت قائم کی اور 2002 کے عام انتخابات میں شرکت کی وہ مذکورہ پارٹی کے صدر تھے جبکہ 21 نومبر 2015 کو ان کے انتقال کے بعد آصف علی زرداری پی پی پی پارلیمنٹریرنز کے صدر منتخب ہوئے جبکہ 2014 میں انہیں زرداری قبائل کا سربراہ بھی مقرر کردیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی -شہید بھٹو

چیئرپرسن : غنویٰ بھٹو

غنویٰ بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کے صاحبزادے میر مرتضیٰ بھٹو کی اہلیہ ہیں

ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے کے بعد ان کے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو نے وطن واپس آکر پی پی پی کی قیادت سنبھالنے کا فیصلہ کیا تاہم اس وقت بینظیر بھٹو پی پی پی کی قیادت پر براجمان تھیں جس کی وجہ سے مرتضیٰ بھٹو نے شہید بھٹو کے نام سے پی پی پی کے ایک علیحدہ گروپ کا اعلان کیا تاہم انہیں 20 ستمبر 1997 میں پارٹی کے دیگر 6 ساتھیوں کے ساتھ قتل کردیا گیا جس کے بعد ان کی بیوہ غنویٰ بھٹو نے پی پی پی شہید بھٹو کی قیادت سنبھالی اور پارٹی کی چیئرمین مقرر ہوئی۔


پاک سرزمین پارٹی

چیئرمین : مصطفیٰ کمال

مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی نے ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کرکے پی ایس پی کی بنیاد رکھی

پاک سرزمین پارٹی کا قیام 23 مارچ 2016 میں عمل میں آیا جب کراچی کے سابق میئر اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے رہنما مصفطیٰ کمال نے ایم کیو ایم کی قیادت پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے اور پارٹی سے الگ ہونے کا اعلان کیا، انہوں ںے ساتھ ہی پاک سرزمین پارٹی کے نام سے نئی جماعت تشکیل دی اور اس کے چیئرمین مقرر ہوئے، ان کے ہمراہ ایم کیو ایم کے سابق رہنماانیس قائم خانی بھی پارٹی کے تشکیل کے عمل میں شریک تھے بعد ازاں رضا ہارون، ڈاکٹر صغیر احمد، وسیم آفتاب، انیس ایڈووکیٹ، افتخار رندھوا اور افتخار عالم سمیت دیگر نے پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔

بعد ازاں ایم کیو ایم کے متعدد کارکن اور رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد نے پاک سرزمین پا رٹی میں شمولیت اختیار کی۔


عوامی نیشنل پارٹی

صدر : اسفند یار ولی خان

اسفند یار ولی کی قیادت میں اے این پی 2008 میں خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تھی

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی بنیاد 1986 میں عبدالولی خان نے رکھی تھی اور باچا خان کے پوتے اسفندیار ولی خان اس کے موجودہ صدر ہیں اس پارٹی نے 2008 کے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا میں کامیابی حاصل کرکے یہاں مخلوط حکومت بنائی تھی جبکہ پارٹی نے ملک کے دیگر صوبوں سے بھی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلوں میں نشستیں حاصل کیں تھیں۔

تاہم قوم نے 2013 کے عام انتخابات میں اس پارٹی کو بری طرح مسترد کیا۔


بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)

صدر : عطاء اللہ مینگل

سردار اختر مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی کی سربراہی کر رہے ہیں

1972 میں نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے بلوچ قوم پرست جماعت نے عطاء اللہ مینگل کی قیادت میں عام انتخابات میں حصہ لیا اور صوبائی حکومت قائم کی تاہم صرف 9 ماہ بعد ہی ان کی حکومت کو گرا دیا گیا اور پارٹی کے رہنماؤں کو پابند سلاسل کردیا گیا، اس کے بعد ضیا الحق کے دور میں عطاء اللہ مینگل لندن چلے گئے جہاں انہوں نے خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزاری اور 1996 میں وطن واپس آکر بلوچستان نیشنل پارٹی کے نام سے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔


قومی وطن پارٹی

صدر : آفتاب شیر پاؤ

آفتاب شیرپاؤ 1999 تک بینظیر کے زیر قیادت پیپلز پارٹی میں شامل رہے

آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے اپنے بھائی حیات شیرپاؤ کے قتل کے بعد 1975 میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی تجویز پر پاک فوج سے ریٹائرمنٹ لی اور پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔

بعد ازاں انہوں نے 1977 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی، 1985 میں ہونے والے انتخابات کا بائیکارٹ کیا جبکہ 1988 وہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا (سرحد) منتخب ہوئے۔

1999 کے الیکشن کے بعد وہ صوبائی اپوزیشن لیڈر بنائے گئے جبکہ انہیں 1994 میں ایک مرتبہ پھر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا منتخب کیا گیا۔

انہوں نے 1997 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی تاہم 1999 میں آفتاب احمد شیرپاؤ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظر بھٹو کے درمیان اختلافات کے بعد انہوں نے اپنا راستہ پی پی پی سے جدا کرکے پی پی پی شیرپاؤ کے نام سے سیاسی جماعت کی بیناد رکھی۔

2002 کے عام انتخابات میں پی پی پی شیرپاؤ نے دو نشستیں حاصل کیں جبکہ 2008 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔

تاہم 2012 میں پارٹی کے نام اور منشور میں تبدیلی کرکے اسے قومی وطن پارٹی کا نام دے دیا گیا، اور یہ پارٹی خود کو پختونوں کی نئی قوم پرست جماعت قرار دینے لگی۔

جس کے بعد پارٹی نے 2013 کے الیکشن میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی ایک جبکہ صوبائی اسمبلی کی 10 نشستیں حاصل کیں اور خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت میں شمولیت اختیار کی۔