ٹیم میں کھلاڑیوں کی شمولیت کا فارمولہ کیا؟ کوئی تو بتائے
پاکستان کرکٹ کے ایک نئے دور کا آغاز بس ہونے ہی والا ہے۔ تجربہ کار 'سپاہی' مصباح الحق اور یونس خان، جنہوں نے اسپاٹ فکسنگ کے بعد بدترین دور میں پاکستان کرکٹ کو سنبھالا اور اِسے بلندیوں تک پہنچایا، لیکن اب ایک نئے عہد کی شروع ہونے جارہی ہے۔
اِس کارنامے پر دونوں کا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا لیکن اب پاکستان کو اُن کے بغیر آگے بڑھنا ہوگا۔ نئے کپتان سرفراز احمد ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں تو اپنی قیادت کا لوہا منوا چکے ہیں لیکن اب سب سے بڑا فارمیٹ اور سب سے بڑا امتحان شروع ہو رہا ہے، یعنی ٹیسٹ کا۔
پاک-سری لنکا سیریز کا باضابطہ آغاز 28 ستمبر سے ہو رہا ہے، جس میں پہلے دو ٹیسٹ میچز کھیلے جائیں گے۔ پاکستان نے اِس پہلے مرحلے کے لیے اپنے 16 رکنی دستے کا اعلان کردیا ہے جس کا سب کو شدّت سے انتظار تھا۔
اِس دستے میں کس کا انتخاب ہونا چاہیے تھا اور کس کا نہیں، اِس بارے میں بات کرنے سے پہلے ایک نظر اسکواڈ پر، جس میں شامل ہیں کپتان سرفراز احمد، اظہر علی، شان مسعود، سمیع اسلم، بابر اعظم، اسد شفیق، حارث سہیل، عثمان صلاح الدین، یاسر شاہ، محمد اصغر، بلال آصف، میر حمزہ، محمد عامر، حسن علی، محمد عباس اور وہاب ریاض۔
پڑھیے: سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کیلئے پاکستانی ٹیم کا اعلان
اگر آپ پاکستان کرکٹ کے بڑے پرستار ہیں اور کرکٹ کو فالو کرتے ہیں تو ایک لمحے میں آپ اُن کمزور کڑیوں تک پہنچ گئے ہوں گے، جن کی ہم آگے نشاندہی کرنے جا رہے ہیں۔
قومی ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کی اِس فہرست میں پہلا حیران کن نام حارث سہیل کا ہے۔ حارث سہیل 2013ء میں قومی منظرنامے پر آئے تھے اور پاکستان کے لیے کچھ میچز بھی کھیلے لیکن پھر زخمی ہوئے اور طویل عرصے کے لیے باہر ہوگئے۔
2014ء سے اب تک انہوں نے کوئی انٹرنیشنل میچ تو کجا، کوئی فرسٹ کلاس بھی نہیں کھیلا۔ سلیکشن کمیٹی ایسے کھلاڑی کو ایک کمزور بیٹنگ لائن اپ کا حصہ کیسے بنا سکتی ہے؟ یہ فیصلہ سمجھ سے باہر ہے۔
اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ حارث سہیل ایک باصلاحیت کھلاڑی ہیں اور متعدد بار اِس کا ثبوت بھی دے چکے ہیں لیکن دو تجربہ کار اور اہم ترین بلّے بازوں کی جگہ تین سال سے فرسٹ کلاس تک نہ کھیلنے والے بلّے باز کا انتخاب صرف پاکستان کے لیے ہی خطرناک نہیں، بلکہ خود اِس پلیئر کے کریئر کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔
پاکستان حارث سہیل کی جگہ پر باآسانی فواد عالم کا انتخاب کرسکتا تھا، لیکن انہیں ایک مرتبہ پھر بُری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہ فواد عالم کی بدقسمتی ہے کہ 10 ہزار سے زیادہ فرسٹ کلاس رنز بھی انہیں قومی ٹیم میں مستقل جگہ نہیں دے سکے۔
جن تین سالوں میں حارث سہیل منظر عام سے غائب تھے، اُس عرصے میں فواد عالم نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں لگ بھگ 60 کے اوسط سے دو ہزار سے زیادہ رنز بنائے ہیں۔ لیکن اِس کے باوجود ہمیشہ کی طرح قرعہ فال اُن کے نام نہيں نکلا۔
ویسے، فواد عالم نے اپنے مختصر ٹیسٹ کیریئر کا آغاز 2009ء میں سری لنکا کے دورے سے کیا تھا اور تین مقابلوں میں وہ 41 سے زیادہ کا اوسط رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی واحد ٹیسٹ سنچری پہلے ہی ٹیسٹ میں بنائی تھی۔ گو کہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے لیکن فواد عالم آج بھی ایک اچھے بلّے باز کے روپ میں موجود ہیں، بس نظر کرم کے منتظر ہیں۔
حارث سہیل کے ساتھ ساتھ سلیکشن کمیٹی نے بلال آصف کا بھی انتخاب کیا ہے۔ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے بلال نے 2015ء میں پاکستان کے لیے تین ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے تھے اور ابتداء ہی میں اِن کا باؤلنگ ایکشن مشکوک قرار دے دیا گیا تھا۔
گو کہ بلال کی عمر 32 سال ہے لیکن اِن کا کرکٹ کیریئر بہت مختصر ہے۔ اب تک صرف 15 فرسٹ کلاس میچز کھیلے ہیں جن میں بیٹنگ اوسط 20 بھی نہیں ہے جبکہ وکٹوں کی تعداد بھی محض 38 ہے۔
یہ ظاہر کرتا ہے کہ اِن کے انتخاب میں میرٹ کو ملحوظ خاطر نہيں رکھا گیا کیونکہ ٹیسٹ کرکٹ کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ بلال اور اِن جیسے کم تجربہ کار کھلاڑیوں کو ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے فارمیٹ میں آزمایا جاتا ہے، انہیں ٹیسٹ میں بلانا دراصل اِن کے اپنے ساتھ ناانصافی ہے۔
اوپنرز میں ہمیں شان مسعود کا نام بھی نظر آ رہا ہے جنہیں اب تک بہت مواقع مل چکے ہیں۔ چار سالہ کیریئر میں شان مسعود نے 10 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں اور رواں سال دورۂ ویسٹ انڈیز میں بھی شامل تھے۔ شان کا بیٹنگ ایوریج صرف 23 ہے اور فرسٹ کلاس کیریئر بھی اِن کے شایان شان نہیں ہے: 95 فرسٹ کلاس میچز میں لگ بھگ 34 کے اوسط سے 5 ہزار رنز۔
اِن کے مقابلے میں احمد شہزاد 13 ٹیسٹ میں تقریباً 41 کا اوسط رکھتے ہيں اور رنز کی تعداد بھی ایک ہزار کو چھونے والی ہے۔ شان مسعود کے مقابلے میں احمد شہزاد کی سنچریاں اور نصف سنچریاں بھی زیادہ ہیں اور وہ اِن فارم بھی ہیں۔ آپ نے انہیں ورلڈ الیون کے خلاف بیٹنگ کرتے دیکھا ہوگا۔
قومی سلیکشن کمیٹی نے کچھ عرصے سے کھلاڑیوں کی فٹنس کے لیے بڑے سخت معیارات مرتب کر رکھے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عمر اکمل کو اَن فٹ قرار دے کر اسکواڈ سے باہر کیا گیا ہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ اظہر علی کے علاوہ یاسر شاہ کو بھی مکمل فٹ نہ ہونے کے باوجود ٹیم میں جگہ دی گئی ہے۔
بلاشبہ 'شاہ صاحب' پاکستان کرکٹ کا بڑا اثاثہ ہیں اور حالیہ تمام فتوحات میں اِن کا بڑا کردار رہا ہے لیکن زخمی حالت میں کھلانا نہ پاکستان کے لیے فائدہ مند ہے اور نہ خود یاسر شاہ کے لیے۔ اِن کے بجائے پاکستان کو شاداب خان کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔
یہ مشورہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان شاداب خان باصلاحیت بھی ہیں اور اِن کی موجودگی بلّے بازی کو بھی تقویت بخشتی ہے جو پہلے ہی بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ شاداب نے حالیہ دورۂ ویسٹ انڈیز میں اپنے ٹیسٹ کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ اگرچہ وہ کیریبیئن سرزمین پر زیادہ کامیاب تو نہیں رہے لیکن متحدہ عرب امارات کی اسپنرز کے لیے مددگار وکٹوں پر شاداب کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے۔
بہرحال، اب اسکواڈ کا اعلان تو ہوچکا ہے، لیکن ساتھ ہی ایک بڑا سوال بھی پیدا ہوگیا ہے کیا یہ دستہ لنکا ڈھانے میں کامیاب ہوگا؟ اگر باؤلنگ لائن دیکھیں تو اس میں 20 وکٹیں لینے کی صلاحیت نظر آتی ہے اور یہ شعبہ اتنا کمزور نظر نہیں آتا لیکن بیٹنگ لائن تشویشناک ہے۔
پاک-لنکا ٹیسٹ سیریز صرف دو مقابلوں پر مشتمل ہے یعنی کہ پہلے ہی مقابلے میں حالات قابو سے باہر ہوئے تو واپسی کا امکان نہیں۔ دیکھتے ہیں یہ کھلاڑی کس طرح توقعات پر پورا اترتے ہیں۔
فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔