ہم کہ ٹھہرے اجنبی: مشرقی پاکستان میں انتخابات و قتلِ عام
اوپر موجود یہ بھیانک تصویر 1971 کے سانحے، جس میں پاکستان دولخت ہوا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا، میں بچ جانے والوں کے ذہنی صدمے کی مکمل داستان ہے۔ یہ تصویر مشہور ہندوستانی فوٹوگرافر رگھو رائے نے لی جو ڈھاکہ میں ہندوستانی افواج کے ساتھ موجود تھے۔ رگھو رائے نے اس خصوصی رپورٹ کے لیے ڈان کو اپنی تصاویر عطیہ کی ہیں۔
ہم کہ ٹھہرے اجنبی: مشرقی پاکستان میں انتخابات و قتلِ عام
ایس اکبر زیدی
عائشہ جلال اپنی کتاب دی اسٹرگل فار پاکستان: اے مسلم ہوم لینڈ اینڈ گلوبل پولیٹکس، میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان، جنہوں نے جب ایوب مخالف احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے تھے، تب ملک میں مارشل نافذ کیا اور ایوب خان کو ہٹا کر خود پاکستان کے صدر بن گئے، کے بارے میں لکھتی ہیں کہ یحییٰ خان، "جوشیلے، بلا نوش اور لاپرواہ طبیعت کے حامل شخص تھے۔" شاید کئی لوگوں کو اب بھی یحییٰ خان کی باتیں یاد ہوں جن کو عائشہ جلال ’رات کی سرگرمیاں’ کہتی ہیں، کیونکہ ان دنوں وہ باتیں ’عوام میں موضوعِ گفتگو تھیں’ جبکہ ’جنرل رانی' کا موضوع، بقول عائشہ جلال، ’اشرافیہ کی آپسی گپ شپ کا حصہ ہوتا تھا۔’
لیکن، شاید آج انہیں ان دو بڑے ہی غیر معمولی کاموں کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہوگا جو ان کے زیر نگرانی انجام پائے، پہلا 1970 کے انتخابات، اور دوسرا مشرقی پاکستان میں قتل عام جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش بننے کی راہ ہموار ہوئی۔ مذکورہ دونوں مواقع پر انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ہاں وہ ایک پکے شرابی تھے لیکن 1970 اور 1971 میں جو کچھ ہوا اس میں صرف ان کے اکیلے کا کردار نہیں تھا بلکہ دو دیگر کردار، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان بھی تھے، جن کا اس دوران نہایت اہم کردار رہا۔
ایوب خان کی فوجی حکومت میں شروع ہونے والی ترقی کی دہائی کے سرمایہ دارانہ اصولوں کی وجہ سے بے شمار تضادات ابھر کر سامنے آئے، یوں 1960 کی دہائی کے اواخر میں علاقائی، سماجی، معاشی اور سیاسی بے چینی پیدا ہوئی اور پاکستان میں عوامی سطح کی پہلی حکومت مخالف تحریک کے باعث ایوب خان استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے۔
مغربی پاکستان میں جہاں بلوچ اور پختون قوم پرست ون یونٹ کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے، وہاں بھٹو بھی تھے جنہوں نے ایوب خان کے خلاف طلباء، مزدور طبقے اور نئے ابھرتے متوسط طبقے کے چند حلقوں کی رہنمائی کی۔ جبکہ چند دانشور بھٹو کے شدید احتجاج کو دیکھ کر بڑے بڑے دعوے کرنے لگے تھے، کہ پاکستان میں ایک سوشلسٹ انقلاب آنے والا ہے۔ بطور ایک غیر پنجابی، اور 1966 میں تاشقند سے لوٹنے کے بعد ایوب سے راہیں جدا کرنے کی وجہ سے وہ مغربی پاکستان میں اس فوجی حکومت کے خلاف ایک غالب آواز بن گئے تھے جس حکومت کا وہ کبھی حصہ رہے تھے۔
جب ایوب خان کو اقتدار سے باہر نکال دیا گیا تو اس وقت شیخ مجیب ہی تھے جو 1966 میں جمہوریت اور نمایاں صوبائی خود مختاری کے لیے اپنا چھے نکاتی پروگرام پیش کرنے، اور 1968 میں اگرتلہ سازش کیس میں شامل کیے جانے (لیکن بعد میں انہیں چھوڑ دیا گیا تھا)، کے بعد مشرقی پاکستانی/بنگالی قوم پرستی کی آواز بن کر تیزی سے ابھر رہے تھے، بھلے ہی وہ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی صوبے کے کسانوں کی آواز تھے۔
یہ بات بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ جب چند بنگالی آوازیں متحدہ پاکستان کو چیلنج کر رہی تھیں تب بھی مجیب، ایسے سیاسی منظر نامے کے باوجود کہ جب مشرقی حصے میں یہ احساس بڑھتا جا رہا تھا کہ مشرقی پاکستان اب مغربی پاکستان کی محض ایک کالونی بن چکا ہے، ایک متحد، جمہوری، اور وفاقی پاکستان کے حامی تھے۔کرشماتی اور عوامی رہنماؤں، جو فوجی حکومت کے پورے 11 برس ایک طرف بیٹھے تھے، کے باعث پیدا ہونے والے ان حالات میں یحییٰ خان نے ون یونٹ کو ختم کرتے ہوئے اور پاکستان کے اکثریتی صوبے کو آبادی کے لحاظ سے پارلیمنٹ میں 300 میں سے 162 نشستیں فراہم کرتے ہوئے، اکتوبر 1970 میں انتخابات کروانے کا اعلان کر دیا۔
یحییٰ خان نے ایوب خان سے اقتدار چھین کر ملک میں مارشل نافذ کیا تھا، جبکہ فوج اور بیوروکریسی، اپنی شہرت آزمانے کے لیے بے چین سیاسی جماعتوں اور عناصر کو اپنی طرف راغب کرنے میں مصروف تھیں۔ یحییٰ خان کے فیصلے کا جائزہ لینے والے مؤرخین کا کہنا ہے کہ انتخابات کا فیصلہ ملٹری انٹیلیجینس کی رپورٹس کی بنیاد پر کیا گیا تھا، جن کے مطابق پارلیمنٹ میں کوئی ایک پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی، اور، کمزور پارلیمنٹ کی وجہ سے حقیقی طاقت فوج اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ کے پاس ہی رہے گی۔
مشرقی بنگال میں مون سون بارشوں کے باعث، حکومت نے انتخابات دو ماہ کے لیے ملتوی کر دیے۔ انتخابات کی تاریخ 7 دسمبر مقرر کی گئی۔ لیکن نومبر 1970 میں مشرقی پاکستان میں ایک تباہ کن سمندری طوفان نے زبردست تباہی مچاتے ہوئے 2 لاکھ افراد کی جان لے لی، اور یوں انتخابات اور، ماضی کا جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ پورے پاکستان کی تقدیر پر مہر لگا دی۔
اس بحران سے نمٹنے کے لیے پنجابی - مہاجر اکثریت والی فوجی بیوروکریٹک انتظامیہ کے رد عمل پر مشرقی پاکستانی ہکا بکا رہ گئے، جس وقت پاکستان کے پہلے عام انتخابات کے انعقاد میں صرف چند ہفتے بچے تھے، تب مشرقی پاکستانی سیاستدان یہ نشاندہی کرنے کے لیے بے چین تھے کہ مغربی پاکستان کے حکمران ٹولے نے پاکستانی بنگالیوں کو کس طرح بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت سازی کے بارے میں تحقیق کرنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں کبھی بھی انتخابات کا انعقاد نہ ہونے کی کئی وجوہات تھیں ان میں سے ایک وجہ پنجابی - مہاجر اشرافیہ اور ان کے فوجی بیوروکریٹک اتحاد کا خوف تھا۔ وہ خوف یہ تھا کہ انتخابات ہوئے تو مشرقی پاکستان، ایک بڑا صوبہ ہونے اور عوامی اکثریت کی وجہ سے پارلیمنٹ کی نشستوں پر ہمیشہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوگا۔
1970 کے انتخابات کے نتائج نے اس خوف کو صحیح ثابت کرنے کا کام انجام دیا۔ شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے 160 پر کامیابی حاصل کی، یوں متحدہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں انہیں اکثریت حاصل ہوئی۔ مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 138 میں سے 81 نشستیں حاصل کیں، یوں یہ مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت بن گئی، پیپلز پارٹی نے سندھ اور پنجاب سے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ 1970 کا سب سے اہم نتیجہ یہ نکلا تھا کہ دونوں بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک نے بھی ملک کے دوسرے حصے سے ایک نشست پر بھی کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ انتخابی طور پر پاکستان تقسیم ہو چکا تھا۔
مارچ 1971 میں فوج نے مشرقی پاکستان میں آپریشن سرچ لائٹ شروع کر دیا۔ انتخابات سے ظالمانہ فوجی آپریشنز تک کا یہ مختصر عرصہ یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح مغربی پاکستان کے چند سیاستدانوں نے اس معاملے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا تھا اور پھر انہی کی طرح فوجی قیادت نے بھی سیاسی مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے میں نااہلی اور غیر رضامندی کا مظاہرہ کیا۔