'سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کو عام کرنا غیر قانونی عمل'
پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ حکومت سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کو عام کرنے کے حق میں نہیں، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو یہ مستقبل میں روایت بن جائے گی۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے ملک احمد خان نے کہا کہ قانون کے مطابق اس رپورٹ کو صرف حکومت کی حد تک رکھنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ 'اس رپورٹ کا مقصد صرف یہ تھا کہ حکومت کو پتا چل سکے کہ آیا اس واقعے میں کون ملوث تھا، لیکن اسے پبلک کرنا ایک غیر مناسب اور غیر قانونی عمل ہوگا'۔
ان کا کہنا تھا کہ جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کسی صورت بھی چالان کی صورت میں پیش نہیں ہوسکتی اور نہ ہی یہ اس کا متبادل تصور کی جائے گی۔
پنجاب حکومت کے ترجمان نے کہا کہ اگرچہ یہ کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت میں تھا، لیکن اب لاہور ہائی کورٹ نے واقعے کے متاثرین کے مفاد میں حکم جاری کیا کہ انہیں بھی معلوم ہو کہ ذمہ دار کون تھا، مگر ایسا کرنا قانون کے برعکس ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ 'اس رپورٹ میں چند ایسی باتیں بھی لکھی گئی ہیں جن کا اُس واقعے کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں اور انہیں پبلک کرنا کسی صورت بھی ہمارے مفاد میں نہیں ہے‘۔
مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: باقر نجفی رپورٹ منظرعام پر لانے کا حکم جاری
خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا حکم جاری کیا تھا۔
16 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ واقعے میں جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء اور زخمیوں کا حق ہے کہ انھیں اصل ذمہ داروں کا ہتہ چلے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عوامی دستاویز ہے، جوڈیشل انکوائری عوام کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اسے عوام کے سامنے ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ 2014 میں پیش آنے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔
واضح رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا، مگر عوامی تحریک کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے باعث 14 افراد ہلاک جبکہ 90 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔