پنجاب انگڑائی لے رہا ہے
کہتے ہیں کہ تاثر کبھی حقیقت کو کھا جاتا ہے اور کبھی اِسے اپنے معنی پہنا دیتا ہے، مگر دنیا کی معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی تاثر کی حقیقت جانچنے کے لیے جذباتی یا واقعاتی نہیں بلکہ ٹھوس اور جامع سائنسی اور تحقیقی تجزیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
اعداد و شمار پر مبنی کوئی بھی تحقیق اور پھر اُس کے سائنسی اور حسابی جائزے کے لیے تناسب اور شرح کی اصطلاحات انتہائی اہم ہیں اور بہت سے معاشی، سائنسی اور حسابی کلیوں میں اِن کا کردار لازم ہوتا ہے۔
حالیہ مردم شماری ہی کو لے لیجیے کہ جب تک ہمارے سامنے گزشتہ مردم شماری کے اعداد و شمار اور دیگر تفصیلات نہیں ہوں گی، اُس وقت تک ہم ہرگز یہ نہیں جان سکیں گے کہ کس شہر کی آبادی کس شرح سے بڑھی اور کس صوبے کا تناسب کل آبادی میں کیا تھا۔
مئی 2013 کے عام انتخابات کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو ان عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کو 1 کروڑ 48 لاکھ 74 ہزار 104 جبکہ تحریک انصاف کو 76 لاکھ 79 ہزار 954 ووٹ پڑے۔ یوں کل ملا کر پڑنے والے 2 کروڑ 25 لاکھ 54 ہزار 058 ووٹوں میں سے نواز لیگ کے حصے میں 66 فیصد جبکہ تحریک انصاف کے حصے میں 34 فیصد ووٹ آئے۔
آسان الفاظ میں کہیں تو ہر 100 میں سے 66 ووٹرز نے نواز لیگ پر اعتماد کا اظہار کیا جبکہ 34 ووٹرز کی نظر میں تحریک انصاف معتبر ٹھہری۔
2013 کے انتخابات کے بعد یہ ایک عام تاثر ہے کہ گزشتہ چار برسوں میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت دن بدن کم ہورہی ہے اور 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو گزشتہ انتخابات میں ڈالا گیا ووٹ ڈھونڈے بھی نہ ملے گا۔
پڑھیے: پیپلز پارٹی پنجاب، ایک ڈوبتا سورج
اِس تاثر کو تقویت کیوں نہ ملتی کہ مئی 2013 کے عام انتخابات سے لے کر ستمبر 2017 تک پنجاب میں قومی اسمبلی کی 16 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے 14 پر نواز لیگ اور 2 پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 23 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں سے 18 حلقوں میں نواز لیگ کو کامیابی ملی جبکہ صرف 5 حلقوں میں تحریک انصاف کو فتح نصیب ہوئی۔
مگر بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، بلکہ تحریک انصاف کی بظاہر گرتی مقبولیت کے تاثر کا جائزہ اعداد و شمار کے ساتھ لینا اور پھر اُس کی وجوہات تلاش کرنا بھی سیاست کے طالب علموں پر لازم ٹھہرتا ہے۔
گزشتہ چار برسوں میں پنجاب میں قومی اسمبلی کی 16 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں کل 20 لاکھ 94 ہزار 713 ووٹرز نے نواز لیگ اور تحریک انصاف پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اِن میں سے 11 لاکھ 68 ہزار 701 ووٹرز نے شیر پر مہر لگائی جبکہ 9 لاکھ 26 ہزار 12 ووٹرز نے بلے کا نشان منتخب کیا۔ یوں دونوں جماعتوں کو کل ملا کر ڈالے گئے ووٹس میں سے 56 فیصد نواز لیگ جبکہ 44 فیصد تحریک انصاف کے حصے میں آئے۔
دونوں جماعتوں کو پڑنے والے ووٹس کی شرح کا موازنہ کرنے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ گزشتہ 4 برسوں میں ضمنی انتخاب کی بھٹی سے گزرنے والے مذکورہ 16 حلقوں میں مئی 2013 کے عام انتخابات میں نواز لیگ اور تحریک انصاف کو کل ملا کر 22 لاکھ 14 ہزار 902 ووٹ ڈالے گئے تھے۔
چار برس قبل اِن حلقوں میں 14 لاکھ 13 ہزار 482 ووٹرز نے نواز لیگ جبکہ 8 لاکھ 1 ہزار 420 ووٹرز نے تحریک انصاف کا انتخاب کیا تھا۔ یوں دونوں جماعتوں کو ڈالے گئے کل ووٹوں میں سے 64 فیصد نواز لیگ جبکہ 36 فیصد تحریک انصاف کے حصے میں آئے تھے۔
یہ حقیقت سیاست کے طالب علموں کے لیے دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اگر اعداد و شمار کی زبان میں بات کی جائے تو گزرے چار برسوں میں پلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے بہت سے پانیوں نے تحریک انصاف کے ووٹ بینک کو 36 فیصد سے بڑھا کر 44 فیصد جبکہ نواز لیگ کے ووٹ بینک کو 64 فیصد سے کم کر کے 56 فیصد کردیا ہے۔
2013 سے 2017 کے درمیان تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں 8 فیصد اضافے اور نواز لیگ کے ووٹ بینک میں 8 فیصد کمی کی کئی وجوہات اور عوامل کے ساتھ ساتھ اِن کے مخلتف تہہ در تہہ پہلو بھی ہیں۔
پاکستان کے سیاسی نظام اور اِس کی انتخابی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والے اِس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پنجاب میں تحریک انصاف کا بڑھتا ووٹ بینک اِس کی نشستوں کی تعداد بڑھانے میں کیونکر مدد نہیں دے رہا۔
مزید پڑھیے: میں کیہڑے پاسے جاواں، تے ووٹ کنھوں پاواں؟
ایک ایسے پیچیدہ اور گنجلک انتخابی نظام میں کہ جہاں مختلف انتخابی حلقوں کے درمیان رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد و تناسب میں زمین آسمان کا فرق ہو، وہاں ووٹ بینک میں اضافے کے ایک مخصوص تناسب کو پار کرنے کے بعد ہی نشست جھولی میں گرا کرتی ہے اور اعداد و اشمار کی روشنی میں تحریک انصاف آئندہ آنے والے انتخابات میں اِس تناسب کو پار کرتی نظر آتی ہے۔
آج سے چار برس قبل ہونے والے 2013 کے عام انتخابات میں یہ بالکل بھی واضح نہیں تھا کہ آئندہ انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ نواز کا مقابلہ کس سے ہوگا، کیونکہ انتخابی حلقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے ووٹ بینک کے اثرات بھی کسی حد تک موجود تھے۔
گزشتہ عام انتخابات میں بڑی تعداد میں 'الیکٹ ایبلز' نے بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ اُن کی ںظر میں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ق کے ووٹ بینک میں اتنی سکت نہیں تھی جو مسلم لیگ نواز کو چیلنج کرسکے اور وہ اُن انتخابات میں تحریک انصاف کی متوقع اُڑان سے بھی پوری طرح آگاہ نہیں تھے۔ اِس لیے آزاد امیدواروں نے اپنی انفرادیت کے زعم اور مسلم لیگ نواز کی مخالفت کے تاریخی اور علاقائی عوامل کے دباؤ میں خود کو آزاد امیدوار کے طور پر میدان میں اتارنے کا کڑوا گھونٹ بھرنے میں ہی عافیت جانی۔
ملکی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرنے والے صوبہ پنجاب کے پاس، نئی مردم شماری کے اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد بھی موجودہ آبادی میں 51 فیصد کا شیئر موجود ہے جس کا یہ واضح مطلب ہے کہ پنجاب کو اب بھی قومی اسمبلی کی سیٹوں کا کم ازکم 50 فیصد حصہ ضرور ملے گا۔ یوں اب کی بار بھی پنجاب میں انتخابی جنگ جیتنے والی جماعت مرکز پر حکومت کرے گی۔ ایسے میں یہ بات انتہائی اہم ہوجاتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ نواز کو کون اور کیوں کر چیلنج کرسکتا ہے۔
پنجاب کے بڑے شہری علاقوں لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، ملتان، سیالکوٹ ہی نہیں بلکہ چھوٹے پاکٹس جیسے جہلم، اٹک، چکوال وغیرہ میں بھی پاکستان تحریک انصاف کا ووٹ بینک نواز لیگ کے مقابلے میں بہتر ہوا ہے جس کا بڑا ثبوت اِن علاقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں دیکھنے کو ملا جب ہر آنے والے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف اور نواز لیگ کو پڑنے والے ووٹوں کا فرق کم ہوتا نظر آیا۔
کم از کم پنجاب ہی کی حد تک اِن انتخابات میں تحریک انصاف کی انفرادیت یہ بھی رہی کہ بڑے صوبے میں نواز مخالف ووٹ بینک، جو دائیں اور بائیں دونوں بازوؤں کا تھا، وہ تیزی سے تحریک انصاف کی جھولی میں گرتا نظر آیا۔ جس کی سب سے بڑی مثال لاہور میں این اے 120 کا ضمنی انتخابات تھا جہاں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی دونوں کے امیدوار جن کی انتخابی مہم نواز لیگ مخالفت پر مبنی تھی، کو صرف بالترتیب 592 اور 1414 ووٹ ملے۔
پنجاب کے شہری علاقوں میں یہ رجحان اس بات کی علامت ہے کہ یہاں کے ووٹرز میں یہ تاثر جڑ پکڑ گیا ہے کہ اِس صوبے میں تحریک انصاف ہی نواز لیگ کا مقابلہ کرسکتی ہے جبھی تیسرے نمبر پر رہنے والے امیدوار کے ووٹ کسی قابلِ ذکر تعداد میں بھی نہیں نظر نہیں آتے۔
سیاسی اور انتخابی ماہرین جانتے ہیں کہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں برادری ازم اور شریکوں کے مقابلے کی سیاست کا زور قیام پاکستان سے قبل ہی کا ہے جو ابھی بھی کافی حد تک موجود ہے۔ مطلب اِس کا کچھ یوں ہے کہ اگر ایک برادری نواز لیگ کے ساتھ ہے تو اُس کی مخالف برادری ہر صورت مخالف سیاسی جماعت کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے زور لگاتی ہے۔
جانیے: کینڈی کرش ساگا: عمران خان کا پسندیدہ گیم؟
پنجاب میں گزشتہ چار برسوں کے درمیان ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ دیہی حلقوں میں بھی نواز لیگ کے مخالف دھڑوں نے اپنا زور تحریک انصاف کے پلڑے میں ہی ڈالا۔
اگر سیاسی حرکیات کے سائنسی تجزیے کی سہولت کے لیے پنجاب کو شمالی، جنوبی اور وسطی پنجاب کی صورت تین حصوں میں قابل بحث بنایا جائے تو 2014 میں جنوبی پنجاب کے شہر ملتان، 2015 میں وسطی پنجاب کے شہر لاہور اور 2016 میں شمالی پنجاب کے شہر جہلم میں ہونے والی قومی اسمبلی کے حلقوں کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو ڈلنے والے ووٹ بینک کے تناسب میں قابل ذکر اضافہ دیکھا گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ پنجاب کے صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخابات کے دوران ڈیرہ غازی خان کی صوبائی نشست، الیکٹ ایبل کی پارٹی میں شمولیت اور لاہور کی صوبائی نشست، دھرنا سیاست کے زیرِ اثر تحریک انصاف کا مقدر بن گئی۔
22 اگست 2013 سے لیکر 17 ستمبر 2017 تک ملک کے سب سے بڑے سیاسی اکھاڑے پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی 39 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ 32 پر نواز لیگ جبکہ 7 پر تحریک انصاف نے کامیابی حاصل کی۔ اِن نشستوں میں سے چند ایک نواز لیگ نے تحریک انصاف سے چھینیں اور چند ایک تحریک انصاف نے نواز لیگ سے۔
مگر اہم ترین بات اس میں یہ ہے کہ ان 39 نشستوں میں سے 5 نشستیں پہلے تحریک انصاف کے پاس تھیں یعنی آخری ٹوٹل میں کم از کم 2 مزید نشستیں تحریک انصاف نے مسلم لیگ نواز سے حاصل کیں۔
این اے 120 لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں نواز لیگ کے ووٹ بینک میں 8 فیصد کمی اور تحریک انصاف کے ووٹ بینک میں 8 فیصد اضافہ یہ بتا رہا ہے کہ پنجاب دھیرے دھیرے انگڑائی لے رہا ہے اور 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف اِس منفرد اور نئی حقیقت کے ساتھ میدان میں اترے گی کہ صرف یہ ہی وہ سیاسی جماعت ہے جو اب کی بار پنجاب کے سیاسی اکھاڑے میں نواز لیگ سے دو دو ہاتھ کرسکتی ہے۔
محمد فیاض راجہ گزشتہ 15 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ روزنامہ نوائے وقت، بزنس پلس ٹی وی، جیو ٹی وی اور سماء ٹی وی سے بطور رپورٹر وابستہ رہے ہیں. آج کل ڈان نیوز میں بطور نمائندہ خصوصی کام کر رہے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: mfayyazraja@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔