پاکستان

مشرف دور کی ترمیم تاحال صدارتی انتخاب کے قوانین کا حصہ

ترمیم اکتوبر2007 کے انتخابات سے چند ہفتے قبل سامنے آئی، جس میں پرویز مشرف نے باآسانی کامیابی حاصل کی تھی۔

اسلام آباد: سزا یافتہ، مخبوط الحواس، اور سرکاری ملازمین کو صدارتی الیکشن کا حصہ بننے کی اجازت دینے کے حوالے سے الیکشن قوانین میں ہونے والی متنازع ترمیم تاحال جوں کی توں موجود ہے۔

واضح رہے کہ یہ قانون سازی سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی خوشنودی کے لیے ایک دہائی قبل کی گئی تھی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کے مطابق اگر صدر ممنون حسین اپنے منصب سے دستبردار ہوتے ہیں تو یہ ترمیم برطرف ہونے والے وزیراعظم نواز شریف کو اصولی طور پر صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دے گی۔

الیکشن کمیشن نے ستمبر 2007 میں صدارتی انتخابات کے حوالے سے اس قانون میں ترمیم کی جس کے بعد صدارتی امیدواروں کے لیے نااہلی کی شرائط ختم ہوگئیں۔

یہ ترمیم 6 اکتوبر 2007 کے انتخابات سے چند ہفتے قبل سامنے آئی تھی، جبکہ ان انتخابات میں جنرل پرویز مشرف نے باآسانی کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اہم ترین اپوزیشن رہنماؤں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کی جلاوطنی کی وجہ سے 2007 کے انتخابات کے نتائج پہلے ہی عیاں تھے۔

خیال رہے کہ اُس وقت کے وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر شیرافگن نیازی (مرحوم) کے انکشاف سے قبل صدارتی انتخاب کے قوانین میں ہونے والی اس ترمیم کی موجودگی کو الیکشن کمیشن کی جانب سے خفیہ رکھا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا

ترمیم سے قبل صدارتی الیکشن کے قوانین کے کالعدم سیکشن 5(3)(اے) کے تحت رٹرننگ افسران کو اختیار حاصل تھا کہ اگر انہیں کوئی امیدوار آئین کے مطابق صدر کے انتخاب کے لیے نااہل لگتا ہے تو وہ سمری انکوائری کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی کو مسترد کردیں تاہم اس حصے کو قانون سے ہٹا دیا گیا۔

جلد بازی میں کی جانے والی اس ترمیم کے بعد جواز پیش کیا گیا تھا کہ اس کا مقصد قانون کو 2002 اور 2005 کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق کرنا تھا۔

واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف جا کر عدلیہ بحالی تحریک کی سربراہی کرنے والے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سپریم کورٹ کے ان دونوں بینچز کا حصہ تھے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی یہ دلیل متعدد مبصرین کو مطمئن کرنے میں ناکام رہی تھی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کی جانے والی اس تبدیلی کے لیے اتنا انتظار کیوں کیا گیا اور اسے متنازع صدارتی الیکشن سے صرف چند ہفتوں پہلے ہی کیوں نافذ کیا گیا۔

پاکستان وکلاء فورمز کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن پر اُس وقت کے چیف جسٹس ناظم حسین صدیقی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے، جس میں جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت جسٹس جاوید اقبال، جسٹس عبدالحمید ڈوگر اور جسٹس فقیر محمد کھوکھر شامل تھے، اس دلیل کو خارج کردیا تھا کہ آرمی چیف صدر کا عہدہ نہیں سنبھال سکتا۔

مزید پڑھیں: کیا نواز شریف تاحیات نااہل ہوگئے؟

تاہم الیکشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ صدارتی الیکشن کے قوانین میں کالعدم قرار دی گئی دفعہ 5(3)(اے) کو بحال کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2007 میں صورتحال قدرے مختلف تھی جب آئین کی کئی شقوں کو عارضی طور پر ملتوی کردیا گیا تھا۔

انہوں نے واضح کیا کہ آئین کے آرٹیکل 41(2) کے مطابق ’کوئی فرد اُس وقت تک صدارتی الیکشن کے لیے اہل نہیں اگر وہ مسلمان نہ ہو، اس کی عمر 45 سال سے کم ہو اور وہ قومی اسمبلی کا رکن منتخب نہ ہوسکتا ہو‘۔

دوسری جانب جولائی 2013 سے الیکشن کمیشن نے صدارتی امیدواروں سے حلف لینے کا آغاز کردیا جس میں وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62 میں بیان کردہ اہلیت پر پورا اترتے ہیں اور آرٹیکل 63 سمیت کوئی بھی قانون انہیں صدر پاکستان منتخب ہونے سے نہیں روکتا۔

لیکن 2007 میں ای سی پی کے سیکریٹری رہنے والے کنور دلشاد 2007 میں آئین کی شقوں کے ملتوی ہونے کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ قانون میں ہونے والی ترمیم سپریم کورٹ کے دو فیصلوں کی روشنی میں کی گئی تھی اور اُس وقت کوئی فوجی دباؤ نہیں تھا۔

ان کے خیال میں الیکشن کمیشن کو صدارتی امیدواروں پر نااہلی کی شق لگانے کے لیے عدالتی نظرثانی کی ضرورت ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62 کے تحت نااہل ہونے والے نواز شریف اس ترمیم کی وجہ سے اب بھی صدارتی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔


یہ خبر 18 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔