کراچی کو کس نے کب کب نقصان پہنچایا؟
جب بھی پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو کسی قدرتی آفت کا سامنا ہوتا ہے تو شہر کے اندر اور باہر سے غصیلی آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ حزبِ اختلاف میں موجود جماعتیں اور شہری حکومت صوبائی حکومت پر الزام دھرتی ہیں اور پھر سب مل کر وفاقی حکومت پر انگلی اُٹھاتے ہیں، جس کے بدلے میں وفاقی حکومت صوبائی اور مقامی انتظامیہ پر تنقید کے نشتر چلاتی ہے۔
اِس حوالے سے زیادہ تر تنقید سیاسی پسِ منظر میں کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کے اِس پہاڑ کے نیچے مسائل کے چند تاریخی اسباب دب جاتے ہیں، یوں اِس افراتفری سے بھرپور شہر کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہا ہے، اور یہ تاریخی اسباب محض 10، 20، یا 30 سال پرانے بھی نہیں، بلکہ یہ پاکستان بننے سے بھی پہلے کے ہیں۔
ارون آئزن برگ نے 1974 میں چھپنے والی اپنی کتاب، دی نیشن آف دی انڈین سب کوٹینینٹ میں لکھا ہے کہ
1947 میں جس وقت پاکستان قائم ہوا تب کراچی شہر کو جنوبی ایشیاء کا سب سے صاف ستھرا شہر تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن 1940 کی دہائی سے شہر کا بنیادی ڈھانچہ جو کہ 1990 دہائی سے برٹش نے تعمیر کرنا شروع کیا تھا، وہ دباؤ کا شکار ہونے لگا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران اور بعد بھی، جب یہ شہر ایک خوشحال پورٹ سٹی بنا، تب پورے ہندوستان سے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے یہاں کا رخ کیا۔
سال 1944 کی مون سون بارشوں کے دوران شہر میں پہلی بار اربن فلڈنگ یا شہری سیلاب کا بڑا واقعہ پیش آیا۔ اُس وقت نکاسی آب اور سیوریج نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔ اُس کے بعد 1947 میں، شہر میں 6 لاکھ مسلمان مہاجرین کا جم غفیر کراچی پہنچا، یہ مہاجرین ہندوستان کے مختلف علاقوں سے یہاں آئے تھے۔
1951 کے آتے آتے مہاجرین کی آبادی 8 لاکھ 15 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ کراچی میں اچانک اور اِس قدر بڑی تعداد میں آنے والے لوگوں کو جگہ فراہم کرنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی تھی۔ رہائش اور ملازمتوں کی کمی، نکاسی آب اور سیورج، پانی، بجلی کے ناکافی انتظامات اور ٹرانسپورٹ کی ناکافی سہولیات سمیت حکومت کو بڑی سطح پر بنیادی ڈھانچوں کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
حکومت نے کراچی امپروومینٹ ٹرسٹ (کے آئی ٹی) تشکیل دیا جس نے 2500 ایکڑ زمین پر نوآبادیاں تعمیر کیں۔ اِس طرح مہاجرین کو شہر کے گرد و نواح کے علاقوں میں آباد کرنے سے مرکز میں آبادی کا دباؤ تو کم ہوا لیکن 1950 کی دہائی کے آتے آتے ایسی کئی نو آبادیاں کچی آبادیوں یا بستیوں میں بدل گئیں۔
حمیدہ کھوڑو اور انور موراج کی زیرِ ترتیب کتاب میں آرکیٹیکٹ عارف حسن اپنے مضمون 'کراچی: میگا سٹی آف آر ٹائمز' میں لکھتے ہیں کہ،
حکومت نے مرز رینڈل ویٹن (ایم آر وی) نامی ایک سوئڈش ترقیاتی ادارے کی خدمات بھی حاصل کیں۔ اُس ادارے نے رہائش، ٹرانسپورٹ اور دیگر بنیادی ڈھانچوں کے منصوبوں کے لیے 'ایم آر وی پلان' مرتب کیا۔
1950 کی دہائی میں ملک کے غیر مستحکم سیاسی حالات کی وجہ سے ایم آر وی پلان پر عمل در آمد نہیں ہو پایا۔ حالات اُس وقت بد سے بدتر ہوگئے جب ایوب خان کی حکومت نے بڑے پیمانے پر صنعتکاری کا آغاز کیا۔ حسن نے لکھا کہ ایوب کی زبردست صنعتکاری کے منصوبوں کا مرکز کراچی بنا۔ جس کی وجہ سے وائٹ اور بلو کالر ملازمتوں کے بے شمار مواقع تو فراہم ہوئے لیکن یوں شہر نے اپنی طرف ہجرت کی ایک نئی لہر کو بھی دعوت دی جو اُس بار پنجاب اور سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) سے آئی تھی۔
اِس طرح مقامی لوگوں میں مایوسی پیدا ہوئی، کیونکہ اُن کا ماننا تھا کہ اُن کی ملازمتوں پر نئے مہاجرین قابض ہوجائیں گے۔ 1965 میں، کراچی میں پہلی بار نسلی بنیاد پر فساد دیکھنے کو ملا۔ شہر کے بڑھتے ہوئے بنیادی ڈھانچے کے مسائل کے حل کے لیے ایوب حکومت نے 1 لاکھ 19 ہزار بے گھر خاندانوں کو سستی رہائش فراہم کرنے اور کچی آبادیوں کو شہر سے دور منتقل کرنے کے لیے ’دوبارہ آبادکاری’ کا منصوبہ مرتب کرنے کے لیے ایک یونانی ادارے کی مدد حاصل کی۔
ابھی 10 ہزار رہائشی یونٹس تعمیر ہوئے تھے کہ 1965 میں (فنڈز کی کمی کی وجہ سے) منصوبے کو ملتوی کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں، غیر قانونی ’مڈل مین’ اور مشکوک ڈیویلپرز کی رہنمائی میں غیر قانونی کچی بستیاں آباد ہونا شروع ہوئیں اور یوں جنم ہوا شہر کی بدنام زمانہ ’لینڈ مافیا’ کا۔ ایسی زیادہ تر آبادیاں نکاسی آب اور سیوریج نالوں پر آباد کی گئیں۔ 1967 میں کراچی میں مون سون بارشوں کے دوران شدید شہری سیلاب کا سامنا کرنا پڑا۔
حکومت شہر میں عوامی ٹرانسپورٹ کے لیے بڑھتی طلب کو بھی پورا نہیں کر پا رہی تھی۔ یوں یہ کام پرائیوٹ ٹرانسپورٹ چلانے والوں کے ہاتھوں میں چلا گیا جن میں زیادہ تر پختون مہاجرین تھے۔
شہر میں بے تحاشہ آبادی اور شہر کے خستہ حال ہوتے بنیادی ڈھانچے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومت نے کراچی کے بڑھتے مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ سے مدد مانگی۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے حامی بھری اور ’کراچی ماسٹر پلان’ کے نام سے ایک ’ماسٹر پلان’ مرتب کیا۔ پلان کے تحت 1968 سے 1985 کے درمیان ہر سال 40 ہزار رہائشی یونٹس بنانے منصوبہ بنایا گیا۔
1950 کی دہائی کے اوائل میں، ایم آر وی پلان میں یہ خیال کیا گیا تھا کہ 2001 کے آتے آتے شہر کی آبادی 30 لاکھ کے قریب پہنچ جائے گی۔ لیکن حسن یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ شہر میں آبادی کی شرح اِس قدر تیزی سے بڑھ رہی تھی کہ 1972 کے آتے آتے ہی شہر کی آبادی مذکورہ تعداد تک پہنچ گئی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران (1977-1971) کراچی میں اندرون سندھ سے ہجرت ہوئی اور اُس وقت کے مشرقی پاکستان سے بہاریوں کی ایک بڑی تعداد نے کراچی کا رخ کیا۔ 1972 میں شہر میں نسلی فسادات کا دوسرا دور شروع ہوا۔
اسٹینلی وولپرٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ
1973 میں بھٹو نے شہر کی بگڑتی صورتحال پر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ کو خط لکھا جس میں وہ بہت مایوس اور بے بس دکھائی دیے۔
شہر میں پیسہ لانے کی خاطر بھٹو حکومت نے عرب ملکوں اور یورپ سے سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا۔ اِس مقصد کے لیے حکومت نے شہر میں مزید کسینو اور فائیو اسٹار ہوٹلز تعمیر کرنے کا منصوبہ شروع کیا۔ لیکن 1977 میں حکومت ختم ہونے کے بعد یہ منصوبہ بھی ادھورا رہ گیا۔
حسن لکھتے ہیں کہ، حالانکہ 1950 اور 1970 کی دہائی کے اواخر کے درمیان کراچی سماجی طور پر مختلف نسلی ثقافتوں کا لبرل ملغوبہ بننے کے ساتھ ساتھ ملک میں تفریح کا مرکز بھی بن چکا تھا، لیکن 1977 کے آتے آتے 20 لاکھ سے زائد لوگ شہر کی کچی آبادیوں میں آباد تھے۔ 1976 میں کراچی میں تیسرا اور سب سے بڑا شہری سیلاب آیا۔
1980 کی دہائی میں، ایک بار پھر مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے اِس شہر کا رخ کیا، اِس بار یہ مہاجرین ہزاروں افغان باشندے تھے جو جنگ سے متاثر افغانستان سے یہاں آئے تھے۔ اِن میں کئی لوگ اپنے ساتھ اسلحہ اور منشیات بھی لائے۔ ڈی کے برگن اپنی کتاب 'وار اینڈ ڈرگز' میں لکھتی ہیں کہ
کراچی کے اندر 1979 میں ہیروئن کے نشے کا صرف ایک ہی کیس رپورٹ ہوا تھا۔ مگر 1985 کے آتے آتے، یہ شہر دنیا میں ہروئن کا نشہ کرنے والوں کا دوسرا بڑا مرکز بن چکا تھا۔ جرائم کی شرح میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا اور اسی طرح نسلی جھگڑوں میں بھی اضافہ ہوا۔
جیسے جیسے شہر میں بنیادی ڈھانچے کے مسائل بڑھتے گئے ویسے ویسے اِس شہر پر بدنام زمانہ زمین، ٹرانسپورٹ اور منشیات مافیاؤں کی گرفت مضبوط ہوتی گئی، جبکہ اُنہیں کرپٹ پولیس اور بیوروکریسی بھی سہولت فراہم کیا کرتی تھی۔ 1987 تک 34 لاکھ لوگ جرائم کا گڑھ بنی ہوئی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر تھے۔ بالآخر، 1990 کی دہائی میں شہر کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔
شہر کے مسلسل پھیلاؤ، گنجان آبادی اور بدنظمی کی وجہ سے یہ شہر ہر قسم کے ناخوشگوار عناصر، جیسے منشیات کا کاروبار کرنے والوں، قبضہ خوروں اور جرائم پیشہ گینگز کی آماجگاہ بن گیا، جس کا نتیجہ نسلی فسادات کی صورت میں نکلا۔ 2000 کی دہائی تک شدت پسند تنظیموں نے بھی اِس افراتفری کا ثمر کھانے کے لیے اپنی دکانیں لگانا شروع کردیں۔
شہر میں سیاسی، معاشی اور نسلی مفادات پر ایک دوسرے کے خلاف جھگڑوں نے ایسی صورتحال پیدا کردی کہ کئی مسائل کو باہمی رضامندی سے حل کرنا ناممکن سا ہوگیا۔ 4 مئی 1988 کو شکاگو ٹربیون میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ کراچی ایک دن ’ناقابل رہائش’ شہر بن سکتا ہے۔ رواں سال دی اکانومسٹ کے انٹیلجنس یونٹ کی جانب سے جاری کردہ ’دنیا میں رہائش کے حوالے سے 10 بدترین شہروں’ کی فہرست میں کراچی کو 6 نمبر دیا گیا۔
ورلڈ بینک کی 6 جولائی 2017 کی ایک تحقیق کے مطابق، کراچی کو اپنے بنیادی ڈھانچے کے موجودہ مسائل حل کرنے کے لیے 10 ارب ڈالرز کی خطیر رقم درکار ہوگی، اگر یہ نہیں کیا گیا تو یہ شہر مکمل طور پر بے قابو ہوجائے گا۔
یہ مضمون 10 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار کے میگزین میں شائع ہوا۔
ترجمہ: ایاز احمد لغاری
ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔
ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔